صدیوں سے غزلوں کی چھتر چھاؤں میں پروان چڑھنے والے مشاعروں میں اپنی سدا بہار اور طول طویل نظموں سے تھرتھلی مچا دینے اور صحیح معنوں میںمشاعرہ لُوٹ لینے، عرصۂ دراز سے مقبولیت کے سنگھاسن پہ بیٹھا ہمارا یہ شاعر،ایک زمانے میں سڑکوں سے ٹریفک غائب کر دینے والا ڈراما نگار، محفل کو پل بھر میں زعفرانِ زار بنا دینے والا لطیفہ باز، لطیفہ ساز، دوستوں کا دوست، خُردوں کو بڑھ کے گلے لگانے والا خندہ جبیں، جو نصف صدی تک ادب کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا رہا، زندگی اور زندہ دلی جس کی بلائیں لیتی رہی، ادبی تقاریب جس کے راستے میں پلکیں بچھاتی رہیں، دنیا بھر کے مشاعرے جس کی راہ تکا کرتے، اسے تو آخری دن بھی کسی مشاعرے کی صدارت کرنا تھی، سب حیران ہیں، پریشان ہیں، اداس ہیں۔ ناصر کاظمی کے یہ منظوم الفاظ اس مغموم گھڑی کی تصویر بنے کھڑے ہیں: وہ مے کدے کو جگانے والا، وہ رات کی نیند اڑانے والا یہ آج کیا اُس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ وہ ہجر کی رات کا ستارہ ، وہ ہم نفس، ہم سخن ہمارا سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ چار اگست 1944ء کو زندہ دلانِ لاہور کے بیچوں بیچ جنم لینے والا ہمارا یہ ہر فن مولا فنکار اسلامیہ کالج اور اورینٹل کالج سے فارغ التحصیل، برزخ، ساتواں در، فشار، ذرا پھر سے کہنا، آنکھوں میں تِرے سپنے، اتنے خواب کہاں رکھوں گا، ساحلوں کی ہوا، محبت ایسا دریا ہے، باتیں کرتے دن، عکس، کالے لوگوں کی روشن نظمیں (تراجم) جیسے شعری مجموعوں … وارث، دن، فشار، خواب جاگتے ہیں، جیسے ڈراموں، رائٹرز گلڈ، پرائیڈ آف پرفارمنس، ستارۂ امتیاز، پی ٹی وی اور نگار جیسے فلمی ایوارڈز … ایم اے او کالج میں عطاء الحق قاسمی کے ہمراہ تدریس، مشفق خواجہ ان کی جوڑی کو ’ادب کے سلامت علی، نزاکت علی‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ پنجاب آرٹس کونسل، چلڈرن کمپلکس، پنجاب ٹیکسٹ بک اور اُردو سائنس بورڈ کی افسری اور دنیا بھر کے مشاعروں میں شہرت سمیٹنے کے بعد دس فروری 2023ء کو ساڑھے اٹھتر برس کی عمر میں لاہور ہی میں زندگی کے میلے اور تقاریب کے جھمیلے سے شاید اس خیال سے رخصت ہو گیا کہ: تخلیے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے پیار کرنے والوں کو اِک نگاہ کافی ہے امجد صاحب سے محبت و عقیدت کا تعلق اسی زمانے میں شروع ہو گیا تھا، جب ہم اورینٹل کالج کے طالب علم تھے اور کالج کی انھی سیڑھیوں پہ بیٹھتے تھے، جہاں سے امجد صاحب کی ایک گلاب چہرے پہ مسکراہٹ، چمکتی آنکھوں میں شوخ جذبے لیے، جب بھی کالج کی سیڑھیوں سے، سہیلیوں کو لیے اُترتی، تو ایسے لگتا کہ جیسے دل میں اُتر رہی ہو،کچھ اس تیقن سے بات کرتی/ کہ جیسے دنیا اسی کی آنکھوں سے دیکھتی ہو… مَیں نے شرارتاً پوچھ لیا کہ امجد صاحب! بندہ کس عمر تک بیوی سے ڈرتا رہتا ہے؟ کہنے لگے: اِسی عمر میں، جب اولاد جوان ہو کر ماں کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔ جوانی میں تو وہ صرف ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا ہے۔ جب بھی ملاقات ہوتی، اپنی نئی شائع ہونے والی کتاب بڑی محبت سے عطا کرتے۔ نو مارچ 2022ء کو اسلامیہ کالج کے سالانہ مشاعرے کے آخر میں مجھے اور شاہین عباس کو علیحدہ لے جا کر اپنی معروف نظموں کی بیدار بخت کی ترجمہ کردہ ضخیم کتاب ’’Light of the shadows‘‘ اپنے دستخط کے ساتھ دی۔ مذکورہ بالا نظم کی چند ترجمہ شدہ لائنیں دیکھیے: Smile on her flower-face\ Naughty passions in her shiny eyes\ whenever she came down the steps with her freinds\ My heart skipped a beat\ She spoke with such confidence\ As if the world sees itself\ only through her eyes. جب امجد صاحب کو ترکی حکومت کی جانب سے ایوارڈ ملا تو ان کے اعزاز میں کئی تقاریب منعقد کی گئیں۔ ایک تقریب میری مادرِ علمی اورینٹل کالج میں بھی منعقد کی گئی۔ پرنسپل اورینٹل جناب قمر علی زیدی نے بہ اِصرار شرکت اور اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ امجد صاحب سے چونکہ دیرینہ نیاز مندی تھی، جو اُن کی خردہ نوازی اور ہماری کم لحاظی کی بنا پر کافی حد تک بے تکلفی کی حدود میں داخل ہو چکی تھی۔ چنانچہ نہایت عجلت میں ایک خاکہ ترتیب دیا، جسے شیرانی ہال کے باذوق حاضرین نے بے حد سراہا۔ اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے: ’’آج سے چونتیس برس قبل جب مَیں شیخوپورہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے، پڑھ لکھ کے باؤ بننے کی غرض سے اورینٹل کالج آیا تو یہاں کے چپے چپے، ٹہنی ٹہنی، پتے پتے پر امجد اسلام امجد بکھرا پڑا تھا۔ ہاسٹل میں جا کے ٹی وی آن کرتے ، تو پتہ چلتا کہ امجد صاحب مشاعرہ پڑھ رہے ہیں، بلکہ پڑھ کیا رہے ہیں، دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ پی ٹی وی پہ تو امجد صاحب کی اس قدر دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ سید ضمیر جعفری کو کہنا پڑا: اللہ کے کاموں کی نسبت اللہ کا نام زیادہ ہے اسلام تو کم ہے ٹی وی میں امجد اسلام زیادہ ہے اس زمانے میںیار لوگوں نے بہتیری کوشش کی کہ کہیں نہ کہیں سے امجد اسلام امجد کو سمیٹ کر، تھوڑ ابہت لپیٹ کر کسی کونے کھدرے میں اپنا ٹھِیا لگا لیں، لیکن دوستو! ’گلی گلی مری یاد بچھی ہے‘ والا معاملہ تھا، کہاں کہاں سے سمیٹتے؟ تھک ہار کے تمام دوستوں نے یہی فیصلہ کیا کہ اس شاعر کو نظر اندازکرنا یا اس کے اثرات کو زائل کرنا ہمارے لیے تقریباً ناممکن ہے، اس لیے جہاں تک ہو سکے اس کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ پھر تو کچھ نہ پوچھیں دن رات، صبح شام، ہمارا کھانا پینا ، اوڑھنا بچھونا امجد اسلام امجد بن گیا۔ ہمیں پوری طرح احساس ہو گیا بلکہ آج بھی یہاں کے طلبہ/ اساتذہ دل پہ ہاتھ رکھ کے اقرار کریں گے کہ حیاتِ مستعار کے اس جذباتی دور میںاتنا تو جدِ امجد کام نہیں آتا جتنا امجد اسلام امجد کام آتا ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ: اگر کبھی میری یاد آئے/ تو چاند راتوں کی نرم دل گیر روشنی میں/ کسی ستارے کو دیکھ لینا/ اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر/ تمھارے قدموں میں آ گرے تو/ یہ جان لینا کہ/ وہ استعارہ تھا میرے دل کا/ اگر نہ آئے/ مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے/ کہ تم کسی پہ نگاہ ڈالو/ اس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے/ وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے جیسی لائنیں سن کر اگر کوئی حسینہ رام نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ہمارے زمانۂ طالب علمی میں ہم تمام دوستوں کے سر بلکہ اعصاب پہ امجد اسلام امجد اس قدر سوار ہو چکا تھا کہ اگر کسی دوست سے ادھار دیے پیسے بھی واپس لینے جاتے تو وہ اَدھ پچدی رقم ہماری ہتھیلی پر رکھ کر ایسی رعونت بھری نظروں سے دیکھتا جیسے کہہ رہا ہو: وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ ، جو نہیں ملا اسے بھول جا‘‘