آنکھیں، انسانی وجود میں بہت نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انسان کا سب سے پہلا تعارف ہوتی ہیں۔ یہ انسان کے باطن میں چھپی دہشت، وحشت کا بھی پتہ دیتی ہیں اور اُس کی ظاہری خوبصورتی کو بھی چار چاند لگا دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں انسان پر کی جانے والی نوازشوں اور اس کی ترغیب کے لیے بار بار اچھی آنکھوں والی حوروں کا ذکر کیا ہے۔ سورہ البلد میں ارشاد ہے: کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہیں بنائیں؟ اسی طرح سورہ واقعہ میںنیک اعمال لوگوں کو یہ مژدہ سنایا گیا ہے کہ: ’’اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں، جو چھپے ہوئے قیمتی موتیوں کی طرح ہیں، یہ صِلہ ہے ان کے اعمال کا۔‘‘ سورہ الصافات میں تو مومنین کے لیے تفصیلی مژدہ سنایا گیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ کے خالص برگزیدہ بندے،انھی کے لیے مقررہ روزی ہے، ہر طرح کے میوہ جات سے بااکرام ہوں گے،نعمتوں والی جنتوں میں،تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوں گے، تازہ شراب کے جام کا دور چل رہا ہوگاجو صاف شفاف اور پینے میں لذیذ ہوگی۔ نہ اس سے دردِ سر ہوگا اور نہ اس سے بہکیں گے، اور ان کے پاس نیچی نظروں ، بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی۔‘‘ (۴۰۔ ۴۸) تصویر و تصور کی زبانمیںکسی بھی کیمرے کی رینج اور صلاحیت کو جانچنے کے لیے میگا پکسل کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے موبائل فون میں چار میگا پکسل کا کیمرہ آیا تو لوگ حیران رہ گئے۔ فوٹو گرافی کی سلطنت میں دھوم مچ گئی۔ آج بھی اعلیٰ سے اعلیٰ کمپنی کے کیمرے میں دس، بیس یا پچاس میگا پکسل کی رینج کو عکس بندی کا نقطۂ عروج سمجھا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انسانی آنکھ کے کیمرے میں قدرتی طور پر پانچ سو چھہتر (576) میگا پکسل کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتاب ’’شامِ شعر یاراں‘‘ میں سائنس دانوں کی تحقیق کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’تتلی کی دس ہزار آنکھیں ہوتی ہیں، جن کی مجموعی بصارت سے وہ پھول کو دیکھتی ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں آنکھوں کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے۔ اگر ہم شاعری کی دنیا پہ ایک سرسری سی نظر بھی ڈالیں تو تقریباً دنیا کاہر شاعر اس عمیق و بسیط انسانی عضو کے لیے اپنے اپنے انداز میں رطب اللسان ہے۔اسی طرح اُردو شاعری میں بھی ہمارا ہر قلم کار اپنی اپنی دُھن میں اسی آلۂ لطیف کے گُن گاتا دکھائی دیتا ہے۔ بات امیر خسرو سے شروع کریں تو ان کا یہ مترنم کلام آج بھی دل کو گداز کرنے کے مقام پہ فائز ہے: چھاپ تلک سب چھین لی رے مو سے نیناں ملائی کے اپنی ہی کر لی، لی رے مو سے نیناں ملائی کے اُردو شاعری کو دکن سے شمال کی راہ دکھانے اور اٹھارھویں صدی کے آغاز میں دلّی کے شعرا کو ترکِ فارسی پہ قائل کر کے اُردو غزل کی جانب مائل کرنے والے شاعر کا نام ولی دکنی ہے۔ ولی نے اُردو کو بولی کے درجے سے اٹھا کے زبان کا رُتبہ عطا کرنے میں وہی کردار ادا کیا، جو انگریزی کا جھاکا کھولنے کے لیے جیفری چاؤسر نے کیا۔ آنکھوں کے مضمون کو پُر وقار بنانے کے حوالے سے ان کی یہ منفرد تشبیہہ ملاحظہ کیجیے: تجھ لب کی صفت لعلِ بدخشاں سُوں کہوں گا جادو ہیں تیرے نَین غزالاں سُوں کہوں گا میر تقی میر تو اُردو شاعری کے قلبوت میںروح پھونک دینے والا وہ ساحر ہے کہ جس کا جادو ہمیشہ سر چڑھ کے بولتا ہے۔ اس کے قائم کردہ شعری معیار کی عمارت کے پہلے زینے پہ قدم دھرنے کی بھی کسی کوکم ہی جرأت ہوئی۔ اردو ادب کے سب شارح، سب نقاد اس بات پہ متفق ہیں کہ میر کا قلم جس مضمون کو بھی چھوتا ہے، وہ ادبِ عالیہ کے طاقچے کی زینت بنتا چلا جاتا ہے۔ چشمِ محبوب کی تصویر کاری میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔ کہیں وہ کہتا ہے: عمر بھر ہم رہے شرابی سے دلِ پُر خوں کی اِک گلابی سے کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے تیری آنکھوں کی نیم خوابی سے پھر ان کا یہ شعر تو زبان زدِ خاص وعام ہے: میر اُن نیم باز آنکھوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے کبھی کبھی تو اس طرح کے شعروں سے قیامت ڈھاتا چلا جاتا ہے: وہ سَیر کو وادی کی مائل نہ ہوا ورنہ آنکھوں کو غزالوں کی پاؤں تلے مَل جاتا میرزا محمد رفیع سودا کا تخصص اگرچہ قصیدہ ہے لیکن اُردو غزل میں بھی اتنا دبدبہ تو ہے کہ میر جیسا بد دماغ بھی اسے اپنے علاوہ دوسرا بڑا شاعر مانتا ہے۔ اس کے ہاں آنکھ کی تاثیر و تنویر کا یہ عالم بھی دیکھیے: کیفیتِ چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا مَیں خواجہ میر درد، میر تقی کی نظروں میں اگرچہ آدھا شاعر ہے لیکن ناصر کاظمی کے بقول ایسے عالی دماغ کے سامنے آدھا شاعر ہونا بھی کسے نصیب تھا۔ میر درد کے عمومی تعارفیے میں تصوف کی مبالغہ آرائی بہت زیادہ ہے۔ حالانکہ ان کے ہاں ثقہ غزل کے معاملات و حادثات بھی حوصلہ افزا حد تک موجود ہیں۔ (جاری ہے)