مکرمی !محترم اشرف شریف صاحب نے مورخہ 15جولائی 2019ء کو روزنامہ 92 کے ایک کالم ’’ریاست یا مخالفین ،تاجروں نے کس کاساتھ دیا۔‘‘ فرمایاہے کہ ’’ریاست کا ایک بیانیہ ریاست مخالف ہے۔ یہ بیانیہ پاکستان میں کئی شکلوں میں ابھرا ۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے جب پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تو اس وقت صورت حال مختلف تھی۔ ملک آزاد ہواتو ان دونوں جماعتوں کی قیادت نے آئین پاکستان کے سامنے خو د کو جھکادیا۔ ‘‘ آگے چل کر فرماتے ہیں کہ ’’پاکستان میں ایسے لوگوں کاتسلط تھا جو ریاست اور اس کے اداروں کے لیے وہی لب و لہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں جو کسی زمانے میں جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام ، یونینسٹ پارٹی،علامہ مشرقی ، عبدالغفار خان اور بانی متحدہ کا رہاتھا۔ ‘‘مزید رقم طراز ہیںکہ ’’عمران خان کے ووٹرز نے سیاسی صف بندی کو بھٹو کے حامیوں اور مخالفین کی تقسیم سے نکال کر ریاست کا حامی و مخالف بناکر واضح کیا ہے۔ ‘‘مضمون سے تاثر ملتاہے کہ کالم نگارکا جھکائو حکومتِ وقت اور حاکمِ وقت کی طرف ہے۔ ان کا یہ تاثر دینا بھی درست نہیں ہے کہ اپوزیشن کا بیانیہ ریاست مخالف ہے۔ ریاست نہ تو مقتدر اداروں کانام ہے اور نہ حکومتی پارٹی کا۔ہماری نگاہ میں ریاست سے مراد اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ جس کے تین ستون پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس نے اسلام ، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے عسکری اور سول ڈکٹیٹروں کے سامنے ہمیشہ حق بات کی ہے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پاکستان کے قیام سے قبل اسلامی ریاست کے مختلف پہلوئوں کو نمایاں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت علامہ اقبال ؒ کی دعوت اور تحریک پر سید مودودی ؒ نے پٹھان کوٹ سے لاہور ہجرت کی ۔ قیام پاکستان کے فوری بعد حضرت قائد اعظم ؒ کی ہدایت پر مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ریڈیو پاکستان کی نشری تقریروں کے ذریعے اسلامی ریاست پاکستان کے ممکنہ خدوخال کو نمایاں کیا۔اگر آزادی سے قبل جماعت اسلامی کا ریاست مخالف بیانیہ ہوتا تو کیا مصور پاکستان حضرت علامہ محمد اقبالؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کو لاہور منتقل ہونے اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ آزاد ہونے والی نئی ریاست ’’پاکستان ‘‘کی فکری رہنمائی فرمانے کے لیے اور پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے لیے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ریڈیو پاکستان پر خطابات کی دعوت دیتے؟ (محمداصغر)