اسرا غزہ میں رہنے والی 30 سالہ ماں ہے جو غزہ کی لاکھوں ماؤں کی طرح جنگ کے جہنم سے گزر رہی ہے جس کے دو بچے ہیں آٹھ سالہ بیٹی اور دو سالہ بیٹا۔ وہ کہتی ہے کہ میں اپنے بچوں کے خوف سے پگھلتے ہوئے چہرے نہیں دیکھ سکتی ہم ایک جہنم میں رہ رہے ہیں۔ بچے ذہنی مریض بن چکے ہیں دن میں کئی بار انہونی کے خوف سے الٹیاں کرتے ہیں۔ 1949ء کے جنیوا کنونشن کے مطابق بچوں کو جنگ میں مارنا یا نقصان پہنچانا جنگی اصولوں کے خلاف ہے۔ ایسے اعلی اخلاقی اصول صرف کتابوں میں لکھنے اور لکھے رہ جانے کے ہی لئے ہوتے ہیں کہ بچوں کو جنگ میں بھی محفوظ رکھنا چاہیے۔حقائق اس کے برعکس اور ظالمانہ ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غزہ کی آدھی آبادی بچوں پر مشتمل ہے اور اس جنگ میں ذہنی اور جسمانی طور پر سب سے زیادہ بچے ہی متاثر ہو رہے ہیں۔غزہ پر اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں ہر 15 منٹ میں ایک فلسطینی بچہ شہید ہو رہا ہے۔اعداد و شمار بہت خوفناک ہیں جب سے اسرائیل فلسطین کی جنگ شروع ہوئی ہے ہر روز سو بچے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ آج سے 60 70 برس بیشتر جنگیں ہوتی ہوں گی تو شاید جنگوں کے خوفناک مناظر اس طرح دور دراز بیٹھے ہوئے لوگوں تک نہیں پہنچتے ہوں گے۔غزہ کے رہنے والوں پر قیامت ٹوٹتی ہے اور لہو رنگ مناظر چیخ و پکار کرتی کرلاتی ہوئی تصویریں اور ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں دور دراز بیٹھے ہوئے انسانوں تک پہنچ جاتی ہیں۔یہ ایک عجیب منظر ہے میں نے اس سے پہلے اس عمر کا ایسا صاحب ایمان بچہ نہیں دیکھا۔آنکھوں میں دکھ وحشت اور رنج ہے مگر اس کی زبان پر قرآن کی ان آیات کی تلاوت جاری ہے۔فلسطین کا یہ بہادر بچہ جس کی عمر دس یا بارہ برس ہوگی اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھا ہوا قران کی آیات کی تلاوت کر رہا ہے۔ اسرائیلی وحشیوں کی بمباری نے اس کے خواب ملیا میٹ کردئیے ہیں۔ وہ جس استقامت اور ایمان کے جس عظیم الشان درجے پر کھڑا ان آیات کی تلاوت کر رہا ہے اس کا لحن اور آہنگ آسمانی محسوس ہوتا ہے۔اس کی آواز میری روح میں اتر تی اور آنکھ میں آنسووں کی نمی میں ڈھل جاتی ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔ترجمہ :اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آزمائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ دوسری جگہ فرمایا ہے ۔ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ سبحان اللہ ان آیات کو کئی بار پڑھا تھا ان کا ترجمہ بھی نظر سے گزرا تھا مگر کبھی اس طرح سے ایک ایک لفظ ترازو ہو کر دل میں کبھی نہیں اترا۔ جو اس 10 سال کے فلسطینی بچے کی تلاوت اور اس تلاوت کے ماحول کے سیاق و سباق نے میرے دل میں اتارا۔۔ میں اس صاحب ایمان عظیم بچے کو دیکھ کر بے اختیار اپنے ارد گرد اپنے ماحول کے لاڈ پیار میں بگڑے بچوں کے بارے میں سوچنے لگتی ہوں۔اس عمر میں بچے تو لاڈلے شہزادے ہوتے ہیں نئی نئی فرمائشیں،شرارتیںخواب اور خواہشیں۔ اور ایک یہ بچہ ہے جو بظاہر تو دس سال کا ہے لیکن اس کے ایمان کی عمر بہت پختہ ہے دنیا اور آخرت کا فلسفہ اس کے پورے وجود سے چھلک رہا ہے میں تو کہتی ہوں کہ ایسا استقامت والا مومن تو ہمارا کوئی ایک عالم بھی نہ ہوگا۔یہ ایک اور فلسطینی بچہ ہے اس کی عمر بمشکل تین ساڑھے تین سال ہو گئی اس زمین پر ابھی اس نے عمر کے بس تین ساڑھے تین چار سال گزارے ہوں گے اس میں سے بھی کچھ عرصہ تو بالکل شیر خوارگی کی عمر ہو گی۔ اب اس کی دنیا باپ کے مضبوط کاندھوں اور ماں کے گرم گود سے لے کر اپنے کھلونوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ مگر یہ جنگ زدہ غزہ کا فلسطینی بچہ ہے اس کی آنکھیں خوف سے پھٹی ہوئی ہیں۔ اس کی معصوم سماعتوں کو سنہری لوریوں کی عادت ہے حالات کی بربریت کہیے کہ اسے دشمن کے طیاروں کی گھن گرج خوفناک بمباری کی آوازیں سننا پڑیں۔اس نے بمباری میں اپنا گھر ملیا میٹ ہوتے دیکھا۔ اس کے معصوم چہرے پر بھی زخموں اور خراشوں کے نشان ہیں کیا خبر وہ اپنے گھر کے آنگن میں کھیل رہا ہو اور گھر کا ملبہ اس کے اوپر آن گرا ہو، پھر اسے ملبے سے نکالا ہو جسے ماں کی گود کی عادت تھی وہ ملبے کی ڈھیری سے نکلے گا تو ایسے ہی غم سے پتھر ہو جائے گا۔ اس نے لہولہان ماں کو موت کی وادی میں اترتے دیکھا۔وہ خوف زدہ تھا اور پہلی بار ماں اسے کلیجے سے لگانے اور اپنی گود میں چھپا کر بہلانے کو موجود نہ تھی کہ وہ خود لہو لولہان تھی۔ موت ،وحشت، بربادی اور تباہی کے ان قاتل منظروں نے ننھے بچے کو پتھر کر دیا ہے۔ میرے بچے میرے بس میں ہوتا تو میں تمہارے ننھے وجود سے خوف کے سارے نشتر چنتی،خوف سے پھٹی ان وحشت زدہ ننھی آنکھوں کو مرہم آمیز بوسہ دیتی اور تمھیں اپنی مامتا کے وجود میں چھپا لیتی۔ ایک مہربان اس بچے کو ہلکے ہلکے نرم ہاتھوں سے سہلاتا ہے عربی زبان میں اسے بات کرتا ہے۔ بچہ بدستور۔ پھٹی آنکھوں سے خوف اور سہم کی تصویر بنے فضا میں دیکھتا رہتا ہے۔ وہ شخص عربی میں اس کو کچھ کہتا ہے پیار کرتا ہے اور اسے محبت سے اپنے ساتھ لپٹاتا ہے۔غم کی تصویر بنا بچہ کسی مہربان کاندھے سے لگتے ہی پھوٹ پھوٹ کے رونے لگتا ہے۔اس کے ساتھ مجھے خود پتہ نہیں ، میں کب پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی…!!