سال کے آخری چمکتے ہوئے سورج کو میں نے کتنے ہی شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں پر چمکتے ہوئے دیکھا۔ اس وقت سورج بھیرہ اور اس کے نواح پر اپنی کرنیں انڈیل رہا ہے۔یہ کالم جب آپ پڑھیں گے تو نئے سال کا سورج طلوع ہو چکا ہوگا میں یہ کالم سفر کے دوران لکھ رہی ہوں ۔اس بار آخری چند دن دسمبر کے سفر میں گزرے۔۔سفر ایک طرح کا catalyst ہے جو کئی پرانی یادوں اور پرانے منظروں کو جگادیتا ہے اور یہ سفر اگر سال کے آخری دن میں ہو تو بہت سے منظر ،خیال اور چہرے کہنگی کی گرد جھاڑ کر سفر میں آپ کے ہمراہ ہولیتے ہیں۔ابھی کا ایک تازہ ترین تجربہ دیکھئے:دودن پہلے جب میں نے ٹیکسلا سے اسلام آباد کی طرف سفر شروع کیا کہ اچانک مجھے حمیرا اشفاق کی یاد آئی اور ایسے آئی کہ فون میں پڑے اس کے نمبر کو ڈائل کرڈالا ۔دوسری طرف حمیرا کی محبت اور سنجیدگی میں ڈوبی ہوئی آواز تھی ۔ حمیرا اشفاق ادبی پہچان رکھنے والی اردو کی استاد اور نقاد ہے ، معروف افسانہ نگار ، ناول نگار ہے مگر مجھے تو برسوں پہلے والی حمیرا یاد تھی۔زندگی کا ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب آپ زندگی میں اس مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں کہ: میں ایک مائع ہوں تخلیق کے مراحل میں نجانے کونسے سانچے میں ڈھل رہا ہوں میں حمیرا اشفاق ان دنوں لاہور کالج میں پڑھاتی اور میں روزنامہ جنگ میں صحافت کر رہی تھی۔ ہم دونوں پروفیشن کے آغاز کے دور میں تھے زندگی کے حوالے سے ہمارے خواب اتنے ملتے تھے کہ حمیرا سے ملنا بس اپنے آپ سے ملنے کی طرح تھا۔ وہ کم عمری میں عملی زندگی کے کئی تلخ تجربات سے گزر چکی تھی پھر وہ لاہور سے اسلام آباد شفٹ ہوگئی اور میں اپنی زندگی میں مصروف ہوگئی ۔ بہت برسوں کے بعد میں اسلام آباد پروین شاکر ٹرسٹ کے ایک پروگرام کی میزبانی کے لیے موجود تھی جب حمیرا سے رابطہ کیا تو وہ اسی شام مجھے لینے آگئی۔اس نے میرے لئے کھانا بنارکھا تھا۔ پھر کھانے اور چائے پر باتیں ہوئیں، اتنی کہ ہم باتوں کے غبار میں گم ہوگئے۔ پھر میں اپنی زندگی میں مصروف ہو گئی اور وہ بھی پڑھانے کے لیے چین چلی گئی۔اتنے طویل وقفے کے بعد اس سہ پہر سفر کے دوران اچانک وہ یاد آئی۔ میں کچھ دنوں سے ٹیکسلا میں تھی ۔وہاں عزیزوں، رشتہ داروں سے رابطہ، ملاقاتیں ، باتیں، سیرو تفریح۔ ان ساری مصروفیات میں سال کے آخری دنوں کی وہ ایک سگنیچر اداسی جس میں سود و زیاں کے میزان کا جائزہ لیا جاتا ہے اور عمر عزیز کے تیزی سے بڑھتے چلے جانے کے احساس کو محسوس کیا جاتا ہے۔ وہ سگنیچر اداسی مجھ سے دور رہی کیونکہ احساس کی اس بیل کو پھیلنے کے لیے تنہائی اور یکسوئی کا موسم درکار ہوتا ہے جو رشتوں اور رشتہ داروں سے ملاقاتوں میں مجھے نہ مل سکا اگرچہ کبھی کبھی ذہن میں خیال بھی آتا کہ سال کے آخری دن اپنی ڈائری کچھ ضرور لکھنے کی عادی ہوں۔ ڈائری تو میرے بیگ میں موجود تھی مگر تنہائی اور یکسوئی میسر نہ تھی۔خاص طور پر اس وقت جب آپ کے آس پاس خوابوں خواہشوں اور عزائم سے بھرے ہوئے، زندگی کو نوجوانی کی دہلیز سے دیکھتے ہوئے نوجوانوں کا ہجوم ہو جو اپنے خیالات کو کامل سمجھتے ہیں۔ ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں ۔ عمر کی راہ پر ہم آگے بڑھتے ہیں تو زندگی کے حوالے سے بہت سارے آئیڈیلز ٹوٹتے ہیں اور نئے نظریات اس کی جگہ لیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی آپ کے دامن میں بہت سے تجربات ڈال دیتی ہے۔ یہی زندگی کا سفر ہے۔گزشتہ کچھ برسوں سے میرا کالم کا مقررہ دن سال کی پہلی تاریخ میں آ پڑتا ہے اس بار بھی یہی ہوا۔ارادہ تھا کہ سال کے آغاز میں ایک موٹیویشنل کتاب پر کالموں کی سیریز لکھوں گی جو عمل کرنے والوں کی زندگی بدل دے گی۔انشاللہ جنوری ،2023میں کتاب کو حاصل مطالعہ کالموں میں بیان کروں گی ۔ اس بار حسب روایت میں نے نئے سال کے لیے ارادے باقاعدہ طور پر ڈائری میں تحریر نہیں کیے وجہ وہی کہ سال کے آخری دنوں میں جو جائزہ باقاعدہ لکھ لیا جاتا ہے اس کا موقع اس بار نہیں مل سکا لیکن ذہن کی ڈائری پر ضرور کچھ نہ کچھ لکھا جا رہا ہوتا ہے ۔ یوں تو میں ہر نئے مہینے کے آغاز پر یہاں تک کہ ہر ہفتے کے آغاز پر بھی کرنے والوں کاموں کی فہرست بناتی ہوں کیونکہ میری مصروفیات ایک کالم نگار اور لکھاری کے علاوہ بھی کئی قسم کی ہیں اور مجھے گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر ان کاموں کو کرنے کے لیے باقاعدہ ٹائم مینجمنٹ کی تکنیک استعمال کرنی پڑتی ہیں۔ ایک خاکہ جو اس نئے برس کا ذہن میں بنتاہے اس کے مطابق تو انشاء اللہ 2023 میری کتابوں کا سال ہوگا۔اس حوالے سے پہلی کتاب جو شخصیات پر لکھی ہوئی تحریروں کا انتخاب ہے وہ اللہ نے چاہا تو سال کی پہلی سہ ماہی میں آجائے گی۔عبدالستار عاصم صاحب کا موقر ادارہ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل اسے شائع کررہا ہے ۔شاعری اور منتخب کالموں کا مجموعہ اور ایک عدد سفرنامے پر بھی کام ہورہا ہے ۔کالموں کے انتخاب پر 2019سے کام ہورہا تھا۔ ممتاز نظم گو نصیر احمد ناصر صاحب کی زیر سر پرستی ایک نئے ادارے سے کتاب شائع ہونی تھی مگر کووڈ میں ہونے والی معاشی تباہی ادارہ برداشت نہ کرسکا۔ بوجھل دل سے مجھے مسودہ واپس لینا پڑا۔مسودہ فائنل صورت میں تھا اس پر بہترین کام ہوچکا تھا مگر کسی اور پبلشر کے لیے اس بنے بنائے مسودے کو چھاپنا مشکل تھا۔ سو فیصلہ یہ ہوا کہ نامور شخصیات پر لکھی ہوئی تحریریں الگ چھاپ دی جائیں۔ زندگی کے یہ مرحلے ہم پر واضح کرتے ہیں کہ انسان صرف ارادہ کر سکتا ہے ، ارادوں کو پار لگانے والی ذات اللہ کی ہے۔اور پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول یاد آتا ہے: میں نے اپنے ٹوٹتے ہوئے ارادوں سے اللہ کو پہچانا۔ رہے نام اللہ کا ! اشہب وقت نامعلوم زمانوں سے رواں دواں ہے۔ نہ اس کا آغاز معلوم نہ انجام۔ سال آتے ہیں ،گزر جاتے ہیں۔ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔