چین ایک اعشاریہ تین ٹریلین ڈالرز کی لاگت کا بیلٹ اینڈ روڈ اِنی شی ایٹیو شروع کرچکا ہے۔ یہ ایک ایسی راہداری ہے جس کے 155ملکوں کی معیشت اور دنیا کی 75فیصد آبادی پر براہِ راست اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اِس راہ داری کا عملی طور پرآغاز 2013ء میں ہوا جب چینی صدر شی جنگ پنگ نے وَن بیلٹ۔ون روڈ کے نام سے اِس منصوبے کا افتتاح کیا۔ اِس ساری معاشی راہ داری میں ایک منصوبہ چائنہ۔پاکستان اکنامک کوریڈور بھی ہے جو اب تک کے مختلف معاشی اندازوں کے مطابق ساٹھ سے ستر ارب ڈالرز کی لاگت تک پہنچ چکا ہے۔ حالات کو ذرا اِس انداز سے دیکھئے کہ چین اپنے اِس ایک پروجیکٹ کی بدولت تقریباََ 150ممالک کی معیشت پر اثر انداز ہورہا ہے۔ کئی ممالک میں حکومتی بدل چکی ہیں۔ ایران سعودی عرب کی صلح کروائی جاچکی ہے۔ افغان حکومت روایتی طرزِ حکومت سے ہٹ کر مہذب انداز میں چین کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا چکی ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کا جِن بہت حد تک بوتل میں بند ہوچکا ہے۔ روس اور چین مشرق ِ وسطیٰ میں ایک ایسا بلاک بنانے میں تقریباًَ کامیاب ہوچکے ہیں جس کی بنیاد معیشت اور علاقائی خوشحالی پر رکھی جارہی ہے جس کا مقصد پْر امن طریقے سے کئی ممالک کو اپنے حلقہ اَثر میں لانا ہے۔ دوسری جانب مغربی سامراج اِس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ اِس دوران بھارت میں جی 20کی میٹنگ ہوتی ہے جس میں بھارتی وزیراعظم نریندر دمودر داس مودی ’انڈین۔ مڈل ایسٹ۔یورپ اکنامک کوریڈور‘ کا اعلان کرتے ہیں۔ منصوبہ کے مطابق اِس کوریڈور کے ذریعے ایشیاء ، مڈل ایسٹ، یورپ بذریعہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، فرانس، جرمنی، اٹلی، یورپی یونین، اَردن، اسرائیل اور یونان سمیت کئی ممالک سے تجارتی راستے قائم کرنے کے منصوبہ جات شامل ہوتے ہیں۔ جی ٹوئنٹی کی بیٹھک کے دوران جب اِس اکنامک کوریڈور کا اعلان کیا جاتا ہے تو ترکیہ کو بڑے منظم انداز سے نظر انداز کیا جاتا ہے جس پر ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان احتجاج کرتے ہیں اور ایراق ترقیاتی روڈ پروجیکٹ‘ کا منصوبہ سامنے رکھتے ہیں اور ریلوے کے ذریعے متحدہ عرب امارات، قطر، عراق سمیت کچھ اور ممالک کو آپس میں ملانے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ بھارت کا منصوبہ دراصل چین کے بی آر آئی پروجیکٹ کا جواب ہوتا ہے۔ اگر بھارتی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتا تو یقینی طور پر سب سے زیادہ نقصان چینی منصوبہ کو ہوتا اور یہ چین کو کسی طور قابل ِ قبول نہیں ہوسکتا تھا۔ عالمی منظر نامہ پہ یہ حالات چل رہے ہوتے ہیں کہ عالمی کرداروں کو اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری کشمکش کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ صہیونی حکومت گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھتی چلی آرہی ہے۔اِس خواب کی تکمیل کے لئے اسرائیل غزہ اور ویسٹ بینک کو ویسے کالونالائز (بستی بسانے) کا منصوبہ بناتا ہے جیسا کسی دور میں برطانوی سامراج نے ہندوِ ستان میں کیا تھا۔اسرائیل غزہ اور ویسٹ بینک میں ایسی حکومت چاہتا ہے جو بظاہر تو مقامی افراد پر مشتمل ہو مگر وہ صرف اسرائیل کی حمایتی ہی نہ ہو بلکہ ہر کام، عمل، منصوبہ، اندرونی و بیرونی تعلقات کیلئے اسرائیلی مرضی و منشا ء کے مطابق کرنے کی پابند ہو۔ اِس مقصد کے لئے وہ کافی عرصہ سے کام کر رہا ہوتا ہے۔ برطانونی کالونیلزم او ر تاریخ کے پی ایچ ڈی سکالر اکمل سومر و اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پہ لکھتے ہیں کہ حماس نے الفتح کی قومی سیاسی جدوجہد کو نقصان پہنچایا اور فلسطینی تحریک ِ آزادی کو عسکریت میں تبدیل کیا۔ 1987ء سے ہی فلسطین کی جدوجہد کو مذہبی شدت پسندی کی جانب موڑا گیا۔ حماس کا ہر حملہ فلسطینیوں پر زمین تنگ کرتا ہے اور اسرائیلی جارحیت کو تقویت دیتا ہے۔ غزہ میں حماس کی حکومت فلسطینیوں کا مسلسل قتل ِ عام کرا رہی ہے۔ قومی تحریک کو مذہبی رخ دینے کا یہ کالونیل حربہ ہے اور کالونیل پالیسی کے تحت قومی تحریک کو یوں نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ حماس آخر کیوں فلسطین کی تسلیم شدہ اتھارٹی کے ساتھ مل کر قومی وحدت کے ایجنڈے پر آنے کو تیار نہیں ؟۔ اِسی طرح 1997ء میں اقوام ِ متحدہ کے لیڈرشپ پروگرام کے سلسلے میں معروف عالمی سیاح اور مصنف فرخ سہیل گوئندی نے اْردن میں ملکہ نور کی میزبانی میں ایک تقریب کے دوران اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’آپ نے ہزاروں سال سے یہاں پر بسنے والے فلسطینیوں کی سرزمین پر بندوق، دہشت اور طاقت کی بنیاد پر ایک مذہبی ریاست قائم کرکے اس خطے کے امن کو جنگ ِ مسلسل میں بدل دیا۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے امن قائم کیا اور آپ کسی ایک ثقافت کے نمائندے بھی نہیں۔ آپ نے نہتے فلسطینیوں پر مسلسل جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ آپ نے لوگوں سے چھینی ہوئی زمین پر ریاست قائم کی ہے۔ آپ کا ملک جمہوری قوتوں کے بل پر نہیں بلکہ صہیونی بنیاد پرستوں کے کنٹرول میں ہے‘‘۔مغربی سامراج اسرائیل کی ہمیشہ سے بھرپور معاونت کرتا آرہا ہے۔ حالیہ جنگ ہی کو دیکھیں کہ جونہی اسرائیل نے غزہ پہ حملہ کیا، تو ساتھ ہی مغربی سامراج پھن پھیلائے اسرائیل کی معاونت کے لئے غزہ پہ چڑھ دوڑا۔ غزہ پہ دھاوا بولنے کے ساتھ ہی امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے مشرق ِ وسطیٰ کے سبھی ممالک کا دورہ کیا اور تمام حکمرانوں پہ زور دیا کہ وہ اِس جنگ میں مت کودیں۔ بلنکن مغربی سامراج کے نمائندہ کی حیثیت سے اِس جنگ کو محض تیسری عالمی جنگ میں بدلنے سے روک رہے ہیں۔ ساتھ ہی مغربی سامراج کو اِس بات کا بھی غم ہے کہ چین کے مقابلے میں اعلان کی جانے والی بھارتی کوریڈور بھی رک جائے گی کیونکہ سعودی عرب کے وزیراعظم اور ولی عہد سلطنت شہزادہ محمد بن سلمان نے اسرائیل غزہ جنگ کے بعد اْس کوریڈور میں دلچسپی کم کردی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات اور دیگر اسلامی ممالک پیچھے ہٹتے نظر آرہے ہیں۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ اِس حالیہ جنگ کے نتیجے میں مشرقی بلاک مغربی بلاک پہ بھاری پڑتا نظر آرہا ہے۔ اگرچہ اسرائیل آج بھی غزہ اور ویسٹ بینک کو مغربی بلاک کی پشت پناہی پر کالونالائز کرنے کے اْسی غاضبانہ ایجنڈے پر کام کررہا ہے لیکن حالیہ جنگ میں عالمی منظر نامہ چین کے حق میں بدلتا نظر آرہا ہے۔ اِس لئے چین، روس، پاکستان اور مشرقی بلاک میں شامل دیگر ممالک کو اْن بیس لاکھ فلسطینیوں کی جان و مال اور ملک کے لئے بھی سوچنا ہوگاجو اسرائیل کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں وگرنہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔