ایک آدمی کو کتنا جینا چاہیے؟ چاہتا تو یہ ہے کہ ہمیشہ جیے اور کبھی موت نہ آئے۔ فراعنہ مصر نے اپنی لاشوں کو اسی لیے حنوط کرایا تھا کہ دوبارہ جی اٹھیں گے اور امریکہ و یورپ کے بہت سے امیر کبیر لوگوں نے اس خوش گمانی کی بنا پر کہ جب انسان موت کو تسخیر کر لے گا‘ ان بیماریوں کا علاج دریافت کر لے گا‘ جس کے سبب سے انہیں موت آئی تو امکان ان کے زندہ ہو جانے کا روشن ہے۔ اپنی میتوںکو محفوظ کرا لیا ہے۔ لیکن عالمی شہرت یافتہ ماہر نباتیات اور سائنس داں ڈاکٹر گوڈال سوسال کی عمر تک پہنچ کر مزید جینے سے اکتا گئے اور انہوں نے اپنے لیے رضا کارانہ موت کا انتخاب کر لیا۔ مدتوں پہلے ایک کتاب مغرب میں چھپی تھی Life after death(موت کے بعد زندگی) کتاب کے مصنف ڈاکٹر ریمنڈ موڈی نے ان لوگوں کے تجربات کو اس کتاب میں قلم بند کیا تھا جو موت کی دہلیز کو چھو کر واپس لوٹ آئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو کسی بیماری یا حادثے سے دوچار ہو کر فنا کی گھاٹی میں اتر گئے۔ ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی لیکن وہ دوبارہ زندہ ہو گئے۔ مصنف نے ایسے عارضی موت کی نیند سونے والوں سے ان کے تجربہ موت کے بارے میں تفصیلات اکٹھا کیں۔ عجیب حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ایسے تمام لوگوں کے جوابات اور ان کے تجربات و مشاہدات میں یکسانیت پائی گئی۔ مثلاً کم و بیش سبھوں نے یہ بتایا کہ موت کے بعد انہیں گہرے سکون کا احساس ہوا انہیں ایسا لگا کہ اپنے وجود خاکی سے جدا ہو کر ان کی روح ایک گہری سرنگ میں سفر کر رہی ہے جس کے دوسرے دہانے پر نور ہی نور اور روشنی ہی روشنی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے موت کے بعد اپنے بیوی بچوں اور عزیز و اقارب کو روتے دھوتے اور بین کرتے ہوئے دیکھا۔ کچھ نے تو یہ بھی سنا کہ ڈاکٹر ان کی موت کی اطلاع ان کے لواحقین کو دے رہا ہے۔ ان سارے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ یہ ہے کہ بقول میرؔ ؎ موت اک ماندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر گویا موت انسان کو فنا نہیں کرتی‘ وہ کسی نہ کسی صورت میں باقی رہتا ہے۔ دنیا سے اس کا رابطہ حتمی طور پر منقطع نہیں ہوتا وہ سب کچھ دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے لیکن وہ دنیا کے کاروبار میں دوبارہ شریک ہونے اور زندہ انسانوں سے روابط رکھنے سے محروم ہو جاتا ہے۔ چونکہ مذکورہ کتاب کے جواب دہندگان کا تجربہ عارضی موت سے گزرنے کا رہا اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ جسم سے جدا ہو کر روح کہاں جاتی ہے اور پھر اس پر کیا گزرتی ہے۔ یوں انسانی وجود بدن اور روح کا تعلق اور اس کا آخری انجام ایک سربستہ راز بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر گوڈال نے آخری ہچکی لینے سے پہلے زندگی سے رخصت ہونے کا جو اہتمام کیا اس کی تفصیل دلچسپ بھی ہے اور چشم کشا بھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹر گوڈال کو کسی اذیت ناک بیماری کا سامنا نہیں تھا بس سو برس کی عمر تک پہنچ کر جینے سے ان کا جی اکتا گیا تھا اور انہوں نے تمام قانونی تقاضے پورے کر کے اپنی مرضی سے زندگی کو الوداع کہہ کر موت کو گلے لگایا ان کی خواہش مرگ کی تکمیل میں انہیں سوئٹزر لینڈ کے شہر بازل کے ایک ہسپتال کی باقاعدہ طبی معاونت حاصل رہی۔ خبر بتاتی ہے کہ ڈاکٹر گوڈال کو جب زندگی ختم کرنے والا انجکشن لگایا گیا تو اس وقت بطور خاص جرمن لیجنڈری موسیقار بیتھوون کی نویں سمفنی بجائی جا رہی تھی۔ انہیں یہ سمفنی ہمیشہ سے پسند رہی تھی۔ تب ان کے بستر مرگ کے نزدیک ان کے چار نواسے نواسیاں اور ایک دوست بھی موجود تھا جنہوں نے ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دم توڑتے دیکھا۔مرنے والے نے آخری کھانا فش اینڈ چپس کھایا جو زندگی میں انہیں بے حد مرغوب رہا تھا۔ ان کی موت کے بعد ان کے ڈاکٹر نے میڈیا کو بتایا کہ ڈاکٹر گوڈال کو جب موت کا انجکشن لگایا گیا تو انہیں ابدی نیند میں جانے میں تیس چالیس سکینڈ لگے۔ آخری جملہ جو ان کے منہ سے نکلا وہ یہ تھا’’کتنا اذیت ناک انتظار ہے‘‘ کسی کو نہیں معلوم کہ اس اذیت ناک انتظار کے پردے کے پیچھے ان کے لیے اور کیا کچھ رہا ہو گا۔ بقول ہمارے ایک کلاسیکی شاعر کے: اب تو گھبرا کے وہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ڈاکٹر گوڈال اس زندگی اور دنیا سے جس میں حسن اور مسرت سے لطف اندوز ہونے کے لیے آج بھی کچھ کم سامان راحت نہیں کیوں اتنی دیر یعنی فقط سو سال میں اکتا گئے شاید اس لیے کہ زندگی آدمی کو جس جوش و جذبے اور ولولے سے ہمکنار رکھتی ہے اور جس کی وجہ سے ہمہ وقت وہ دنیا کی رزم گاہ میں مصروف کار رہتا ہے منصوبے بناتا ہے‘ آرزوئوں کو پالتا پوستا ہے اور ان کے حصول میں اپنی قوت اور توانائیاں کھپاتا ہے‘ ایک وقت آتا ہے جب وہ اس کاروبار زندگی سے اکتا جاتا ہے۔ فقط اس لیے کہ اس کی حقیقت اور ناپائیداری اس پر منکشف ہو جاتی ہے۔ بدن کی قوتیں جواب دے جاتی ہیں۔ آرزوئیں اور تمنائیں مرجھا جاتی ہیں۔ بڑھاپے کی منزل پہ پہنچ کر ناتوانی اور بے بسی خود ایک مستقل درد سر بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر گوڈال بھی وہیل چیئر پر آ چکے تھے جو کچھ کر چکے تھے وہ ماضی کا ایک خواب بن چکا تھا نہیں معلوم گزرے ہوئے دنوں کی یاد انہیں شاد کام بھی کرتی تھی یا نہیں۔ سو انہوں نے طے کر لیا ہو گا کہ بس اب بہت ہو چکا۔ چنانچہ جس نیند سے ایک صدی پہلے وہ جاگے تھے پھر وہی نیند ان کی مرضی سے ان پر طاری ہو گئی: بس اتنی سی حقیقت ہے فریب خواب ہستی کی کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ بن جائے سچ پوچھو تو زندگی کی بھاگ دوڑ اور اس کی ہما ہمی ہمیں رک کر ٹھہر کر اپنی زندگی اور موت کی بابت کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔ دنیا میں اپنا مقام بنانے‘ آسائش اور سہولتیں جمع کرنے اور ان سے لذتیں کشید کرنے کی مصروفیت ہماری توجہ کو زندگی کی بنیادی اور اصلی حقیقتوں سے غافل رکھتی ہے اور ایسا انسانی فطرت کا تقاضا ہے کیونکہ اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا۔ دنیا کا کوئی مذہب اور اکثر ملکوں کے قوانین بھی کسی شخص کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے اپنے ہاتھوں ختم کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس کے باوجود انسان اپنے حالات سے تنگ آ کر خود کو ہلاک کر لیتا ہے۔ محض اس لیے کہ مزید جینا اس کے لیے ایک بوجھ بن گیا تھا اور تحت الشعور میں ایک امید یہ بھی پوشیدہ رہتی ہے شاید کہ ؎ موت کتنی بھی سنگ دل ہو مگر زندگی سے تو مہرباں ہو گی ڈاکٹر گوڈال کا فیصلہ‘ اپنی زندگی کے خاتمے کا‘ ہمارے لیے کوئی اچھی خوش کن مثال نہیں۔ آدمی دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آتا۔ زندگی بھی اپنی مرضی سے کہاں گزار پاتا ہے؟ سو سمجھوتے کرنے پڑتے اور ایک جینے کے لیے سو بار مرنا پڑتا ہے تو پھر اسے یہ اختیار کیوں اور کیسے دے دیا جائے کہ فش اور چپس کھا کر آخری سمفنی سنتے ہوئے خود کو موت کی آغوش کے حوالے کر دے۔ یہ ایک مایوس کن رویہ ہے اور کوئی شبہ نہیں کہ مایوس بھی انسان ہی ہوتا ہے لیکن کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے مایوسانہ اقدام سے تھکے ہارے پریشاں حال انسانوں میں مایوسی کا زہر انجکٹ کر دے۔ زندگی اور یہ کائنات ہمیشہ سے دل ربا اور دل کش رہے ہیں۔ ہاں مگر ڈاکٹر گوڈال نے موت کو عالم مایوسی میں الوداع نہیں کہا۔ موت کو الوداع کہنے کیلئے انہوں نے جو اہتمام کیا ایسا لگتا ہے ایک زندگی سے نکل کر یہ دوسری زندگی میں داخل ہونے کا اہتمام تھا۔