وفاقی بجٹ کے مطالعے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیش کردہ بجٹ میں مڈل کلاس اور عام آدمی کیلئے کوئی ریلیف نہیں، گویا ہمارے حکمرانوں نے اپنی روش کو برقرار رکھنے کا ریکارڈ ٹوٹنے نہیں دیا، شائد اس کی ذمہ داری بھی عمران خان پر عائد کر دی جائے۔ وزیر اعظم اس بابت کچھ اس طرح لب کشا ہوئے، فرمانے لگے: آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لیں، جس سے مہنگائی بڑھی، عام آدمی پر بوجھ بڑھا، سابقہ حکومت نے معشیت تباہ کر دی۔ عام آدمی کا سوچنے والے حکمران سابقہ حکومت کی محض غلطیوں اور کج ادائیوں کا تذکرہ نہیں کرتے بلکہ کام کرتے ہیں جبکہ پی ڈی ایم حکمرانوں نے عمران خان کے خلاف باتیں کرنے، مقدمے درج کرنے اور انھیں ہر ناکامی کا مورد الزام ٹھہرانے کے علاؤہ کوئی کام ہی نہیں کیا، لہذا ان کے اپنے سابق وزیر خزانہ پیش کردہ بجٹ کے تناظر میں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے عام پاکستانی کا کچن نہیں چل رہا اور حکومت صرف عمران خان پر ذمہ داری عائد کر رہی ہے۔ جسے پاکستانی عوام تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ غربت کی شرح 40 فیصد کے خوفناک ہندسے کو چھونے کو ہے اور ہمارے ملک کی تمام جماعتوں کی مرکب پی ڈی ایم حکومت اپنی حالیہ حکومت کا آخری بجٹ پیش کرتے ہوئے بھی سارے بحران کا ذمہ دار سابقہ حکومت کو ٹھہرا رہی ہے۔ عوام کیا دل و دماغ نہیں رکھتے؟ دراصل ایسی کارکردگی اور طرز عمل کے باعث عوام کی غالب اکثریت ان حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں سے بیزار ہیں۔ تاجر تنظیموں کی جانب سے بھی برملا کہہ دیا گیا ہے کہ بجٹ کو تاجر دوست کہنا درست نہیں جبکہ فیڈریل پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے سوال اٹھایا ہے کہ پیش کردہ بجٹ میں 175 ارب کے ڈائریکٹ اور 25 ارب کے ان ڈائریکٹ ٹیکسز لگانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ ٹیکس کولیکشن کا یہ ہدف پورا نہیں ہوسکتا۔ ایف پی سی سی آئی کے رد عمل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم عام آدمی کو درپیش بحرانی کیفیت، مسائل اور اس کے کاندھوں پر لدے بوجھ کا تذکرہ کررہے ہیں۔ کیا 200 ارب کے ٹیکسز کی صورت میں سارا نزلہ اسی عام پاکستانی پر منتقل نہیں ہوگا؟ جو پہلے ہی فاقوں تک پہنچ چکا ہے۔ حکمران روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے، والا طرز عمل کیسے اپنا سکتے ہیں؟ غریب اور مڈل کلاس طبقے کے مسائل اور محرومی ختم کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا، اس بات کو سمجھنا کتنا دشوار ہے؟ باتیں اور فلسفے کا بھاشن دینے والے حکمرانوں کے پاس اس کا کوئی فورمولا نہیں تو واحد وجہ عوام سے دوری ہے۔ ان کے دکھ درد کا احساس نہ ہونا ہے، اگر احساس ہوتا تو جس طرح لیپ ٹاپ سکیم کیلئے 10 ارب روپے بجٹ میں مختص کیے گئے ہیں، عوام کو ریلیف دینے کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جاتے، مگر جب توجہ ایسے معمولات پر ہو کہ پرویز خٹک کے استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہونے کے امکانات ہیں۔ وزیر دفاع کہیں کہ ن لیگ کو ترین کی جماعت سے کوئی خطرہ نہیں، ان سے سیٹ ایڈجسمنٹ ہو سکتی ہے تو پھر عوام کا کون اور کیوں سوچے؟ حکمران اپنے کاروبار اور بینک بیلنس بڑھانے کیلئے اقتدار میں آتے رہیں گے۔ عوامی حمایت و مخالفت کی انھیں پرواہ نہیں ہوگی کہ استحکام پاکستان جیسی پارٹیوں کا انضمام انھیں اقتدار کی راہ دکھاتا رہے گا، پھر بجٹ میں عام انتخابات کیلئے 48 ارب کیوں؟ ن لیگ کے زبردست حامی ایک صحافی دوست نے آخر کار کل کہہ ڈالا کہ اگر ایسا کرنا ہے، ویسا کرنا ہے تو انتخابات کیوں؟ یہ سوال اور اس طرح کے کئی سوال عوام کے ذہنوں میں ابھر رہے ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری، غربت، افلاس، ناانصافیاور تذلیل عام پاکستانی کے جذبات کو مزید بھڑکا رہی ہے لیکن ناخدائوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے پیش کردہ بجٹ میں اپنے حصے کی کارکردگی صحافیوں کیلئے ایک ارب کی ہیلتھ انشورنس کے اعلان کی صورت میں سمیٹنے کی سعی کی ہے لیکن سوال ہے کہ صحافی کو کس سے سب سے زیادہ خطرہ ہے اور صحافی کون ہے؟ فی الوقت اور فی الحقیقت صحافیوں کو سب سے زیادہ خطرہ حکمرانوں سے ہے، جسے چاہیں، جب چاہیں اٹھا لیا جاتا ہے، صحافیوں کی اتنی بے توقیری مادر وطن کی 75 سالہ تاریخ میں نہ پہلے کبھی دیکھی، نہ سنی اور نہ پڑھی! جس ملک میں غریب کا احساسِ کرنے کا نعرہ لگانا فیشن کے درجے سے بھی اتر گیا ہو وہاں کسی دوسرے طبقے کی کیا شنوائی ہونی ہے، جب تک اس کی آواز نہ گونجے۔ کئی المیے ہیں، کس کس کا ذکر کریں، سیاست اور اس کے بے اصول تماشوں کو خبر بنا دیا گیا، خبریں ان کے گرد گھومتی ہیں جنہیں زمینی حقائق کی خبر نہیں، اس سے بڑا کسی ملک اور معاشرے کا کیا المیہ ہوسکتا ہے؟ محرومی اورخوف معاشرے کا معمول زندگی بن چکا ہے کہ کوئی طبقہ اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچنے کیلئے تیار نہیں، کوئی مانتا ہی نہیں کہ کوئی حکومت عام آدمی کو ریلیف فراہم کرسکتی ہے، یہ سوچ معاشرے کی ترقی کی راہ میں ایسی روکاوٹ بننے جا رہی ہے کہ ہر شعبہ قحط الرجال کا شکار ہوگا، کوئی طبقہ کسی دوسرے طبقے کو گوارہ کرنے کیلئے تیار نہیں، اس کا تریاق کیا ہے؟ سوچنا بھی گوارہ نہیں کیا جا رہا اور عوام کو مزید ہر اعتبار سے محرومی کی دلدل میں دھکیلنے کو کامیابی اور طاقت تصور کیا جا رہا ہے، اب دیکھیں جماعت اسلامی ملک و ملت کے مفاد کے نام پر پانامہ لیکس کے باقی کرداروں کے تناظر میں عدالت جا پہنچی ہے، معزز جج نے پوچھا: سات سال بعد آپ کو ملک کا مفاد کیسے یاد آ گیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا، تیاری کیلئے عدالت سے مزید وقت مانگ لیا گیا، ثابت ہوا: ایک پراجیکٹ تیار ہوا نہیں اور اس کے غبارے سے ہوا نکالنے کی تیاری شروع، ان معروضات کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ عام آدمی اور مڈل کلاس طبقے کا ہمارے ہاں کوئی سٹیک نہیں، لہذا پیش کردہ بجٹ میں انھیں نظر انداز کرنا بھی کوئی نئی خبر نہیں۔ وہی پرانی ہٹ دھرمی!!بس بجٹ نیا ہے!!!