مولانا الطاف حسین حالی نے مرزا غالب کو، حیوان ِظریف قرار دیا تھا۔ مگر انسان کی اپنی ذات سے "ستم ظریفی" کا بھی، کچھ ٹھکانا نہیں! بیشتر لوگ، آخرت پر یا جزا و سزا پر، ایمان رکھتے ہیں۔ بلکہ اسی کی بنیاد پر، ساری زندگی آپس میں لڑتے بھڑتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے تیاری کرتے ہیں صفر! دنیا کے عارضی اور چند روزہ قیام میں، انسان ہر ممکن آسائش ڈھونڈتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ تْزک و احتشام کی تمنا رکھتا ہے۔ ساری ذہنی اور جسمانی قوتیں، اس پر صرف کر کے رہتا ہے۔ یہ اور بات کہ ہر قدم منزل کی طرف بڑھانے کے بجائے، دور کرتا جاتا ہے۔ ع عزم سفر مغرب و رْو در مشرق اور آرام کی تلاش نے رکھا ہے بے قرار ہر خواہش ِسکوں، سبب ِاضطراب ہے! صوفیا اور تارک الدنیا، اس دنیا کو محض اعتباری کہتے ہیں۔ میر صاحب ایسی ہی کسی کیفیت سے دوچار ہوئے ہوں گے، جو کہا یہ توہم کا کارخانہ ہے یاں وہی ہے، جو اعتبار کیا سابق امریکن صدر جارج ڈبلیو بْش کا چند روز پہلے انتقال ہو گیا۔ مشرق ِوسطٰی کی تباہی کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ، اسی خاندان کو جاتا ہے۔ وہ بنیاد سینئر بْش کی رکھی ہوئی ہے، جسے اٹھا کر، عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ سارا خطہ اْدھیڑ کر رکھ دیا گیا۔ گیارہ ستمبر 2001ء کی دہشت گردی، چھوٹے بْش کی صدارت کے زمانے میں ہوئی تھی۔ میں ان دنوں، کنساس سٹی میں زیر ِتعلیم تھا۔ یہ امریکن ریاست مزوری اور کنساس کا، مشترکہ شہر ہے۔ ستمبر دو ہزار ایک کو، چھوٹے بْش نے کہا تھا کہ دنیا اب پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ اپنے عوام کو بْش نے اسی روز خبردار کر دیا تھا کہ یہ تازہ صلیبی جنگیں بڑا وقت لیں گی۔ ان کی دونوں پیشین گوئیاں یا منصوبے، کرسی نشین ہوئے۔ اس ایک واقعے نے امریکنوں کو، دنیا بھر کے مسلمانوں سے، اتنا بدظن کر دیا کہ بْش کو کھلی چھٹی دے دی گئی۔ یہ جس ملک کو چاہیں، اپنے قہر و غضب سے، برباد کر ڈالیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک روز، اپنے کسی ہم جماعت اور بے تکلف امریکن دوست سے، عراق کے بارے میں بحث ہو رہی تھی۔ میرا موقف یہ تھا کہ عراق کا اس جنگ سے کیا لینا دینا؟ جواباً میرے دوست نے جو کچھ کہا، اس سے مجھے کچھ اشتباہ ہوا۔ احتیاطا پوچھا۔ جانتے بھی ہو کہ عراق ہے کہاں؟ جواب ملا۔ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ عراق افغانستان کا دارالخلافہ ہے! یہ ایک پڑھے لکھے اور نسبتاًکْشادہ نظر امریکن کی "معلومات ِعامہ" تھیں! ان دنوں بْش کی حمایت ان زوروںپر تھی کہ میڈیا کے بڑے بڑے بْت، یک زباں ہو کر چنگھاڑ رہے تھے۔ ایک آدھ کے سوا، کسی میں اتنی جرأ ت نہ تھی کہ افغانستان، اور اس کے بعد عراق پر حملے کی، کھْلے بندوں مخالفت کرتا۔ ذرا کسی نے زبان کھولی اور غدار اور غیر محب ِوطن کے القاب چسپاں ہو گئے۔ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ وہ جھوٹے الزام، جو صدام حسین پر لگائے گئے، ان کی وجہ یہ تھی کہ عراق کے بارے میں، بڑے بْش کے عزائم ادھورے رہ گئے تھے۔ سترہ سال سے جاری جنگوں کا سنگ ِبنیاد، انہی بڑے بْش صاحب کا رکھا ہوا تھا۔ یہ فساد، اب تک دس لاکھ سے زیادہ بے گناہوں کی جان لے چکا ہے۔ اور اس کے جلد تھمنے کی، کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ اْلٹا ایک ایک کرکے، یہ عفریت اَور ملکوں کو نگلتا جا رہا ہے۔ انہی بْش کے اعزاز میں، ٹرمپ نے عام تعطیل کا اعلان کیا ہے! یہ عقیدت اور تحسین، قبر تک ساتھ جائے گی۔ آگے کا حال؟ کہا احباب نے یہ دفن کے وقت کہ ہم کیوں کر وہاں کا حال جانیں لحد تک آپ کی تعظیم کر دی اب آگے آپ کے اعمال جانیں! ٭٭٭٭٭ دو شعر شاعر مبالغہ کیا ہی کرتے ہیں۔ بلکہ شاعری کا حسن، بڑی حد تک مبالغے میں ہے! اس کی افراط و تفریط، کہیں مضمون کو پَر لگا دیتی ہے اور کہیں ڈبو کر رہتی ہے! معشوق کی کمر کو معدوم ظاہر کرنے میں، شاعر کی مبالغہ آرائی ملاحظہ ہو ع کمر باریک چون فکر ِنظامی غالب کہتے ہیں۔ اس خوں چکاں کفن میں، کروڑوں بنائو ہیں پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حْور کی شعر میں اتنی خوبیاں اور ایسی خصوصیات بھری ہوئی ہیں، جو چند فقروں میں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ طباطبائی مرحوم نے، گویا میری زبان سے کہا ہے کہ ایسا شعر بھی کروڑوں میں، ایک نکلتا ہے! کروڑوں کا لفظ، شعر میں وزن کی مجبوری کی بنا پر نہیں لایا گیا۔ اس کی جگہ ہزاروں، لاکھوں یا اربوں رکھ کر دیکھیے، وہ لطف باقی نہیں رہے گا۔ کروڑوں نے شعر کے حْسن کو بھی، کروڑ گنا بڑھا دیا ہے! ایک شعر اکبر الٰہ آبادی کا بھی دیکھیے۔ جہاں ہستی ہوئی محدود، لاکھوں پیچ پڑتے ہیں عقیدے، عقل، عنصر، سب کے سب، آپس میں لڑتے ہیں دنیا و آخرت کا تصور، مذہب اور مادیت، کہنا چاہیے کہ ایک فلسفہ ء حیات، اس شعر میں کھنچ آیا ہے! "ہوئی" کی جگہ "ہوتی"، مضمون کو عام کر دیتا۔ "ہوئی" نے اسے، شاعر کا بھی مشاہدہ اور تجربہ بنا دیا ہے! اور "لاکھوں پیچ"؟ اس کی بجا تعریف سے، قلم قاصر ہے! یہ شعر سْن کر اقبال نے کہا تھا کہ آپ نے ہیگل کے فلسفے کو، ایک قطرے میں بند کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکبر، اس وقت تک ہیگل کے فلسفے سے، واقف نہیں تھے!