پونے دو سال سے کورونا وبانے ایسے گھیرا ہوا ہے کہ ملک میں صحت ِعامہ کے دیگر اہم معاملات پس ِ منظر میں چلے گئے ہیں۔ ان میںسے ایک بڑا خطرہ ایچ آئی وی وائرس اور اس سے پیدا ہونے والے موذی مرض ایڈز کا ہے۔دنیا میں ایڈز کا پھیلاؤ کم ہورہا ہے لیکن پاکستان میںیہ انفیکشن تیزی سے بڑھ رہا ہے۔یکم دسمبر کو دنیا بھر میں ایڈزسے آگاہی کا دن منایا گیا۔ کراچی میں اس موضوع پر ہونے والے ایک سمینار میں ماہرین ِ صحت نے بتایا کہ ملک میں گزشتہ برس ایچ آئی وی انفیکشن کے پچیس ہزار نئے مریض سامنے آئے۔ دنیا میں ایچ آئی وی وائرس سے ہونے والوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔1997 میں ان کی تعداد تیس لاکھ تھی۔گزشتہ برس صرف پندرہ لاکھ نئے مریض سامنے آئے۔ پاکستان میں اسوقت ایچ آئی وی کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد دولاکھ ہے۔ہمارے ہاںایچ اآئی وی کے اصل متاثرہ افراد کی تعداد رجسٹرڈ مریضوںسے کہیں زیادہ ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کو یہ انفیکشن لاحق ہے لیکن انہیں اسکا علم نہیں۔مختلف تحقیقی مطالعات کے مطابق پاکستان میںایچ آئی وی سے متاثرہ اسّی فیصد افراد کو اپنے مرض کا پتہ نہیں ہوتا۔اسوقت ملک میں ایچ آئی وی کے زیادہ تر متاثرہ افرادخواجہ سرا (تیسری جنس کے لوگ ) اور سرنجوں کے ذریعے نشہ کرنے والے ہیں۔خطرناک بات ہے کہ ایڈز کے مریضوں میں تقریباً پانچ ہزار بچے شامل ہیں جن کی عمریں ایک سے چودہ سال کے درمیان ہیں۔ ملک میں پندرہ لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور گلی محلوں میںآوارہ گھومتے پھرتے ہیں یا چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔ ان بچوں کو جسمانی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ اسلیے ان میں ایڈز کا وائرس پھیلنے کے خطرات نسبتاً زیادہ ہیں۔ بعض جراثیمی بیماریاں ہوا ‘ سانس سے پھیلتی ہیںجیسے کورونا‘ بعض مچھروں کے کاٹنے سے جیسے ڈینگی اور بعض ایک انسان کا خون دوسرے انسان میں منتقل ہونے کی وجہ سے جیسے ایڈز۔عطائی ڈاکٹر اور گلی محلوں میں پریکٹس کرنے والے عام ڈاکٹر شروع میں خون کے ٹیسٹ نہیں کرواتے جس سے بروقت مرض کی تشخیص نہیں ہوپاتی۔ پاکستان میں خون کے انتقال سے پھیلنے والے متعدی امراض کی شرح دوسرے ملکوں سے زیادہ ہے۔ مثلا ً ایک تحقیقی سروے سے پتہ چلا کہ تنزانیہ اور بھارت میں ایک سال میں ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگنے والے انفیکشن کی شرح 1.2 فیصدہے جبکہ پاکستان میں 8.5 فیصد۔ ہم نے کئی مسائل اور برائیوں سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ جو لوگ ایچ آئی وی انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں وہ معاشرہ کی ناپسندیدگی کے باعث اسے چھپاتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ ایڈز کا باعث صرف جسمانی تعلق ہے ۔ استعمال شدہ سرنجوں اورحجاموں کے استروںسے بھی یہ انفیکشن ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔ پاکستان میں ایڈز کے پینتالیس فیصد مریض غیرمحفوظ سرنجوں کے باعث متاثر ہوئے۔ دو ہزار اٹھارہ میں سرگودھا (پنجاب) میں بڑی تعداد میں ایچ آئی وی کی وباسے متاثرہ افراد سامنے آئے اور دو ہزار انیس میں رتوڈیرو(سندھ) میں۔ ان دونوں جگہوں پریہ وبائی مرض غیر محفوظ علاج معالجہ یعنی سرنجوں کے باعث پھیلا۔ضروری ہے کہ جراثیم سے پھیلنے والے بعض متعدی امراض سے بچاؤ کے لیے مریض کو انجیکشن با حفاظت طریقہ سے لگایا جائے۔ کسی مریض کو لگائے جانے والے ٹیکہ کے سوئی میں اسکے جراثیم لگ جاتے ہیں۔اس لیے یہ سوئی کسی اور مریض کے جسم میں داخل نہیں ہونی چاہیے تاکہ جراثیم منتقل نہ ہوں۔ اس سرنج کو ضائع کردیناچاہیے ۔ہر مریض کو نئی سرنج سے ٹیکہ لگانا چاہیے۔اسی طرح سرنجوں اورخون لگی ہوئی روئی یا پٹّی وغیرہ کو اس طرح محفوظ طریقہ سے ضائع کرنا چاہیے کہ کسی شخص کے ہاتھ اِس سے مس نہ ہوں۔ ہسپتالوں اور کلینکوں میں صفائی اور استعمال شدہ اشیا کے بحفاظت ضائع کرنے کا مناسب بندوبست ہونا چاہیے۔ سرنجیں عام کوڑے کے ڈبّے میں نہیں پھینکنی چاہئیں بلکہ انہیں اس مقصد کیلیے مخصوص الگ ڈبّوں میں جمع کرکے ضائع کرنا چاہیے۔ہمارے ہاں بڑے شہروں اور کچھ ہسپتالوں میں یہ انتظامات ہیں لیکن چھوٹے شہروں‘ دیہات اور بڑے شہروں کے سرکاری ہسپتالوں میں حفاظتی انتظامات اور صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھا جاتا۔سرکاری ہسپتالوں کے غسل خانوں میں گندگی ہوتی ہے۔ سرنجیں کوڑے کے عام ڈبّوں میں پھینک دی جاتی ہیں۔ ہسپتالوں کا جراثیم آلود کچرا متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان میں ایڈز کے تیز پھیلاؤ کی دوبڑی وجوہ ہیں۔ ایک تو کلینکوں اور ہسپتالوں میں اس جراثیم کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مناسب انتظامات کی کمی ہے۔ دوسرے‘ عام لوگوں میںاس وباسے متعلق آگاہی نہیں ہے۔ایک طویل عرصہ تک پاکستان میں لوگ اس مرض سے وابستہ شرم اور بدنامی کے باعث ایڈز کی موجودگی سے انکار کرتے رہے حالانکہ یہ مرض موجود تھا۔ دنیا بھر میں خون کے زیادہ ٹیسٹ کرنے‘ اینٹی وائرل دواؤں کے استعمال اور احتیاطی اقدامات پر عمل کرنے سے ایچ آئی وی کے پھیلاؤ میں کمی آئی لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہُوا۔ کسی بھی متعدی مرض‘انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اسکی روک تھام کے لیے ایک طریق کار‘میکانزم وضع کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔ ہم نے کورونا وبا میں دیکھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس کے پھیلاؤ کو کم سے کم کرنے کی خاطر مربوط نظام بنائے اور متعدد پابندیاں عائد کیں جیسے اسمارٹ لاک ڈاؤن۔ عوامی مقامات پر لازمی طور پر ماسک پہننا ۔ کوشش کی گئی کہ جتنا ممکن ہو اِن پر عمل کروایا جائے ۔اسی طرح ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کو قابو کرنے کے لیے قومی سطح پر حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی کرکے تمام صوبوں پر اس پر سختی سے عمل کروانے کی ضرررت ہے۔ استعمال شدہ سرنج کے استعمال کو قابلِ دست اندازی پولیس جرم بنایا جائے ۔ ہسپتال کے کچرے کے غیر محفوظ طریقے سے پھینکنے کا قانون موجود ہے۔ اس پر سختی سے عمل درآمد کروانا چاہیے۔ ایچ آئی وی کے لیے خون کے ٹیسٹ کو سستا اور عام کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھانے کی بھی ضرورت ہے کہ اگر یہ انفیکشن ہوگیا ہے تو شرم کے باعث اس کی موجودگی سے انکار نہ کریں بلکہ علاج کروائیں کیونکہ دواؤ ںسے اسکا علاج ممکن ہے۔ ٭٭٭٭٭