سعودی عرب میں عرب ممالک کی نمائندہ تنظیم ’عرب لیگ‘ اورمسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم ’او آئی سی‘ کا مشترکہ اجلاس ہوا ۔اجلاس سے مختلف مسلمان ممالک کے سربراہان نے خطاب کیا ہے۔ خطاب کے دوران مختلف سربراہان ِ مملکت کی جانب سے تقریر کے دوران مندرجہ ذیل تاثرات کا اظہار کیا گیا ہے جنہیں اگر جملوں میں سمیٹا جائے تو کچھ یوں بنتا ہے۔ ’ہم فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔ ’فلسطینیوں کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا‘۔ ’عالمی براداری کو اسرائیل کے ظلم کی مذمت کرنی چاہئے‘۔ ’جنگ میں انسانی وقفہ نہیں، مکمل جنگ بندی کی جائے۔ ’بیت المقدس ہماری ریڈ لائن ہے‘۔ ’فلسطینیوں تک امداد نہیں پہنچنے دی جارہی ہے‘۔ ’امریکی صدر سے ملاقات کے دوران او آئی سی کا پیغام پہنچاؤں گا‘۔ ’او آئی سی امن ڈائیلاگ کی کوشش کرے‘۔ ’اسرائیل کی جارحیت دیکھ کر دلوں پر سکتہ طاری ہے اور دل ٹوٹے ہوئے ہیں‘۔ ’اسرائیلی فوج ہسپتالوں پر حملے کررہی ہے‘۔ ’جو غزہ کی پٹی پہ ہورہا ہے اِس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی‘۔ ’غزہ میں امداد پہنچانے کے لئے انسانی راہداری فراہم کی جائے‘۔ ’عالمی دنیا اسرائیلی مظالم پہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے‘۔ ’فلسطین اسلامی اور انسانی اقدار کا عکاس ہے‘۔ ’فلسطین امت مسلمہ کے فخر کا نشان ہے‘۔ ’خطے کی تاریخ میں یہ فیصلہ کن وقت ہے‘۔ ’ غزہ کے مسئلے کا حل تلاش کیا جانا چاہئے‘۔ ’غزہ کو بیس برس سے محاصرے کا سامنا ہے‘۔ ’اسرائیل غزہ میں اتنی بمباری کرچکا ہے جو سترہ ایٹم بم گرائے جانے کے برابر ہے‘۔ یہ وہ بیانات ہیں جو اکثر اوقات ہمیں سیاسی رہنماؤں سے ملکی مسائل کو حل کرنے کی ’کوششوں‘ میں سننے کو ملتے ہیں کہ ’غربت کا خاتمہ ہونا چاہئے‘۔ ’کرپشن برائی ہے‘۔ ’سماجی انصاف کا نظام قائم ہونا چاہئے‘۔ ’معاشرتی تفریق ختم کرنا ہوگی‘۔دراصل ایسے بیانات کا سوائے خبر کی سرخی بنانے کے اور کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ اِس لئے اس طرح کے بے مقصد اْس دن کے الیکٹرانک میڈیا اور اگلے دن کے اخبار کی زینت بننے کے بعد دم توڑدیتے ہیں۔ اب ایک لمحہ کے لئے ذرا چشم ِ تصور میں یہ لائیں کہ اگرعرب لیگ اور او آئی سی کے اِس اجلاس میں بولے گئے جملے کچھ یوں ہوتے تو کیا ہوتا۔’مشترکہ ملاقات میں یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ تمام مسلمان ملک اسرائیل پہ حملہ کررہے ہیں‘۔ ’فلسطین کی پاک دھرتی کو ظالم یہودیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پاک کیا جائے گا‘۔ ’اسرائیل پہ چاروں اطراف سے زمینی، فضائی اور بحری حملہ کیا جا ئیگا‘۔ ’چن چن کر ہر ظالم یہودی حکمران،ہر یہودی فوجی کو مارا جائے گا‘۔ ’کرہِ ارض سے صہیونی ریاست کا نام و نشان مٹا کر دم لیا جائے گا‘۔ ’فلسطین کی پاک دھرتی پہ آخری یہودی کے وجود تک جنگ جاری رہے گی‘۔ ’اسرائیل کے حق میں عالمی برادری کے کسی قسم کے دباؤ کو نہیں مانا جائے گا‘۔ ’ہم نے طے کیا ہے کہ آزاد فلسطین ریاست کے قیام تک مغرب کو تیل کی فراہمی بند کی جارہی ہے‘۔ ’تمام مسلم ممالک میں یہودی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے‘۔ جس دن او آئی سی اور عرب لیگ نے ایسے بیانات دیے اْس دن نہ صرف فلسطین آزاد ہوجائے گا بلکہ اْس دن کشمیر بھی آزاد ہوجائے گا۔ جس دن ایسا ہوا اْسی دن سے اْمت ِ مسلمہ ایک طاقت بن کر اْبھرے گی۔ایک ایسی طاقت جو عالمی منظر نامے پر ہمیشہ چھائی رہے گی۔ مگر ایسا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے؟ ۔ ترکیہ میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم زوروں پہ ہے۔ ہم اپنے ملک میں مشروبات سے لے کر فوڈ چین اور کپڑوں کے برینڈز تک بائیکاٹ کرنا چاہئے کیونکہ مغربی سامراج کا دین اورتہذیبی طاقت کا بمبو دولت کے تمبو پہ کھڑا ہے۔ اگر مسلم ممالک صرف یہی تمبو اْکھاڑنے میں کامیاب ہوجائیں تو مغربی تہذیب کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی۔ ہمیں آئی ٹی کے شعبہ میں طاقتور قوت بننا ہوگا۔اپنی آواز کو مضبوط انداز میں پیش کرنے کے لئے ’مسلم میڈیا‘ قائم کرنا ہوگا۔کچھ عرصہ قبل پاکستان، سعودی عرب اور ترکیہ نے یہ کوشش کی تھی مگر وہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ہمیں مغربی تہذیب کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قائم کرنا ہونگے۔یقین جانئے اگر ایسا نہ کیا گیا تو ظالم کا راستہ نہیں روکا جاسکے گا۔ اسرائیل صرف گریٹر اسرائیل کا خواب نہیں دیکھ رہا ہے بلکہ وہ وسطیٰ ایشیاء اور جنوبی ایشیاء میں مغربی سامراج کا فرنٹ مین بننے کا خواہاں ہے۔ یہی وجہ ہے جب سات اکتوبر سے جنگ کا آغاز ہوا تو مغربی سامراج کا ریسپانس اِس قدر تیز تھا جیسے وہ اِس جنگ کے شروع ہونے سے قبل ہی واقف تھے کہ غزہ میں اسرائیل حملہ کرنے جا رہا ہے اور اِس حملے کی صورت میں مغربی سامراج کا ردِ عمل کیسا ہوگا۔ اِس جنگ میں جہاں ماسوائے ترکی اور سعودی عرب باقی سبھی مسلم ممالک کا ریسپانس انتہائی مایوس کن ہے وہیں چین اور روس کا کردار قابل ِ دید ہے۔ ترکی اور سعودی عرب اِس لئے منظم حکمت عملی سے آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ دونوں ممالک میں ریاستی و معاشی ڈھانچہ انتہائی مضبوط ہے۔ ترکیہ نیٹو میں امریکہ کے بعد بڑی فوج رکھتا ہے۔ حالیہ جنگ میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کے دیگر مسلم ممالک کے سربراہان سے رابطے معنی خیز رہے ہیں۔ جبکہ اِس دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن جب ترکیہ کے دورے پہ گئے تو اْن سے رجب طیب اردگان نے ملاقات نہیں کی جبکہ سعودی ولی عہد ِ سلطنت نے کافی تامل کے بعد اْن سے ملاقات کی اور انتہائی ناگواری کا اظہار کیا۔ یہی وجہ ہے جب وہ امریکہ واپس پہنچے تو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں اسرائیل کو سختی سے کہا کہ امریکہ غزہ پہ اسرائیلی اجارہ داری تسلیم نہیں کرے گا۔ یہی بیان امریکی صدر جوبائیڈن نے دیا کہ غزہ پہ اسرائیلی قبضہ قابل ِ قبول نہ ہوگا۔ دوسری جانب روس اور چین اِس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ مغربی سامراج بحیرہ ِ روم کے ارد گرد واقع خطوں یعنی مڈل ایسٹ اور دیگر قریبی ملکوں پر اپنی تہذیبی برتری قائم رکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ کے آغاز سے ہی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتین یاہو نے اپنی مختلف تقاریر میں لفظ ’تہذیب‘ استعمال کیا ہے۔ یہ لفظ دراصل ’مغربی تہذیب‘ کا استعارہ ہے۔اِس لئے اسرائیل کو شکست دینے کیلئے جذباتیت سے زیادہ قابل ِ عمل اقدام اٹھانا ہونگے۔