بانو مجھے اندر لے گئیں۔ جب میں ان کے گھر میں جاتی ہوں تو ان کی خواب گاہ میں ہی جاتی ہوں ۔ یہاں میں ایک غیر معمولی بات لکھتی چلوں ، یہ ذکر تو میں کرچکی ہوں کہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں بانو کے بنگلے ہیں لیکن یہ میں اب لکھ رہی ہوں کہ سبھی بنگلے ایک ہی نقشے کے مطابق بنائے گئے ہیں ۔ فرنیچر وغیرہ بھی ایک سا ہے ۔ صرف ملازمائیں مختلف تھیں اور یہ ایک مجبوری تھی ۔ ’’کیپٹن خان!‘‘ بانو نے پیار سے کہا ۔‘‘ مجھے تو یہ بھی معلوم ہے کہ آج ہی تمھیں ایک کیس بھی سونپا جاچکا ہے ۔‘‘ ’’جی ہاں ۔‘‘ میں نے جواب دیا ۔‘‘ کیس کی فائل تو مل گئی لیکن ابھی میں اس کی اسٹڈی نہیں کرسکی ہوں ۔ آفس سے گھر جاتے ہوئے بعض کاغذات پر بس ہلکی سی نظر ڈالی تھی ۔ ‘‘ ’’کوئی خاص بات علم میں آئی ؟‘‘ میں نے ان سے اس پرچے کا ذکر کیا جس کے بارے میں شبہہ کیا جارہا تھا کہ وہ رانا ثناء اللہ نے لشکر جھنگوی کے ایک شخص علی محمد کے نام لکھا تھا کہ وہ ان دونوں سے معاملہ طے کرلے جنہیں اس کے پاس بھیجا جارہا ہے ۔ میں بانو سے تو کوئی بات چھپا نہیں سکتی ۔ سب کچھ بتاتے ہوئے میری نظر اس بڑی اسکرین پر بھی رہی جو بانو کے ہر گھر کی خواب گاہ میں ہوتی ہے ۔ اسکرین روشن بھی تھی اور اس پر بنگلے کے گیٹ کا منظر دکھائی دے رہا تھا ۔ ’’گویا سر منڈواتے ہی اولے پڑے ہیں ۔‘‘ بانونے ہنس کر کہا ‘‘ کیس خطرناک ہے ۔‘‘ ’’میں اب خطروں ہی سے کھیلنا چاہتی ہوں بانو‘‘! میں نے سنجیدگی سے کہا ’’کیا قدم اٹھانے کا ارادہ ہے ؟‘‘ بانو نے پوچھا ۔ ’’سب سے پہلے تو جھنگ ہی جانا ہوگا ۔‘‘ ’’شیر کی کچھار میں ؟‘‘ ’’علی محمد کا سراغ لگانا چاہتی ہوں ۔ وہ علی محمد جس کو پرچہ لکھا گیا ۔‘‘ ’’ کب جائو گی؟‘‘ ’’ شاید کل ہی روانہ ہوجائوں ۔ رات کو فائل کی اسٹڈی کروں گی ۔‘‘ ’’ہوں ۔‘‘ بانو کے چہرے پر تشویش تھی ۔ ’’ میں اپنے ایک خیال پر آپ کی رائے جاننا چاہتی ہوں ۔‘‘ ’’کہو!‘‘ ’’جن لوگوں نے ڈیڈی پر بارودی حملہ کیا ، ان کا تعلق شاید ان لوگوں سے نہ ہو جنہوں نے مجھے ایک شے چرانے کے لیے آلہ کار بنانا چاہا تھا ۔‘‘ ’’ ہوں ۔ ‘‘ بانو نے سر ہلایا ۔‘‘ ایک امکان تو ہے یہ ۔ در اصل ان دنوں، میں ایک دوسرے معاملے میں بہت مصروف رہی ورنہ اس سلسلے میں کچھ معلوم کرتی ۔‘‘ ’’آپ بار بار کن انکھیوں سے اسکرین کی طرف کیوں دیکھ رہی ہیں؟‘‘ میں نے اچانک سوال کیا ۔‘‘ اور کیمرا بھی صرف وہی کام کررہا ہے جو گیٹ دکھا تاہے۔‘‘ بانو ہنسیں ۔’’وہ بات چھیڑوں گی تو گفت گو کا موضوع بدل جائے گا ۔‘‘ ’’کیا فرق پڑتا ہے ۔ اس موضوع پر بعد میں بھی بات ہوسکتی ہے ۔ آپ کے بار بار اس طرف متوجہ ہونے سے میری الجھن آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے ۔ بس یہ بتا دیجئے کہ آپ کسی خاص وجہ سے گیٹ پر نظر رکھنا چاہتی ہیں یا بس یوں ہی؟‘‘ ’’میں بلا وجہ کچھ نہیں کرتی ۔‘‘ بانو نے سنجیدگی سے کہا ۔’’ضروری ہے کہ کم از کم آج ساری رات گیٹ پر نظر رکھوں ۔‘‘ ’’ کوئی خطرہ ہے کیا ؟‘‘ میں چونک گئی تھی ۔ ’’ سو فی صد ضروری نہیں ہے لیکن اس امکان کو مسترد نہیں کرسکتی کہ آج رات کوئی ادھر سے اندر آسکتا ہے ۔ کسی اور جانب سے تو کوئی آہی نہیں سکتا ۔ تم جانتی ہو کہ میں نے اپنے ہر گھر میں کہاں کہاں کیا بندوبست کیا ہے ۔ میں جس قسم کی زندگی گزار رہی ہوں ، اس میں کیا مجھے محتاط رہنے کی ضرورت نہیں ؟‘‘ بانو جب یہ سب کچھ بتا رہی تھیں تو میری بے چینی بہ تدریج بڑھی تھی ۔ میں بانو کے خاموش ہوتے ہی بولی ۔’’آج رات ادھر سے کون آسکتا ہے؟‘‘ ’’میں نے جنرل صاحب کو بتا دیا تھا کہ مجھے دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ گم نام فون آنے لگے ہیں ۔ جنرل صاحب نے تم کو نہیں بتایا ؟‘‘ ’’بتایا تو تھا ڈیڈی نے ۔‘‘ میں نے کہا ۔’’لیکن اس بات کو تو بہت دن ہوگئے ۔ میں نے اس عرسے میں تربیت کا ایک کورس کر لیا ہے ۔ اگر ان لوگوں کو واقعی کچھ کرنا ہوتا تو وہ اب سے بہت پہلے کوئی قدم اٹھاچکے ہوتے!‘‘ ’’ یوں بھی سوچا جاسکتا ہے لیکن دھمکیوں کا سلسلہ یکا یک بند ہوگیا تھا ۔ اس کے بعد ہی میں زیادہ چوکنا رہنے لگی ۔‘‘بانو نے جواب دیا ‘‘۔ کہا جاتا ہے نا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں لیکن پر سکون فضا کسی آندھی کا پیش خیمہ بھی بن جاتی ہے ۔ خاموش سمندر کی تہہ میں طوفان بھی مچلتے ہیں ۔‘‘ ’’کیا آپ کو ایسا کوئی اشارہ ملا ہے ؟‘‘ ’’ ہاں ۔‘‘ بانو نے اسکرین پر نظر ڈالتے ہوئے جواب دیا ۔ ‘‘ آج جب میں یہاں ایئرپورٹ پر اتری تو اترنے والوں میں دو ایسے آدمی بھی تھے جن کی حرکات و سکنات مجھے کراچی کے ڈیپارچر لائونج میں بھی کچھ مشتبہ لگی تھیں۔در اصل گھر سے کراچی ائیر پورٹ تک ایک کار نے میرا تعاقب کیا تھا ۔ اس میں بھی دوہی آدمی تھے ۔ وہ ڈیپارچر لائونج میں نہیں آئے ۔ انھوں نے باہر ہی سے ان دونوں آدمیوں کو کچھ اشارہ کیا تھا جو ڈیپارچر لائونج میں داخل ہونے کے بعد زیادہ آگے نہیں آئے تھے ۔ اشارہ ملنے کے بعد ان میں سے ایک نے مجھ پر عجیب سی نظر ڈالی تھی ۔ پھر وہ ڈیپارچر لائونج کی کرسیوں پر آبیٹھے تھے ۔ انھوں نے میرے ساتھ سفر کیا اور یہاں ارائیول لائونج میں آنے کے بعد وہ غائب ہوگئے لیکن جاتے جاتے وہ دو اور آدمیوںکو اشارہ کرگئے تھے جنہوں نے یہاں تک میرا تعاقب کیا ۔‘‘ ’’اتنی احتیاط؟‘‘ میں نے سوالیہ انداز میں کہا ؟‘‘پھر اسکرین پر نظر ڈال کر بولی ۔‘‘ انھیں آپ کے بارے میں یقینا کچھ زیادہ علم نہیں ہوگا۔ ان کی یہ احتیاط بھلا آپ کی نظر سے کیسے بچ سکتی تھی ؟‘‘ ’’ ان کی اسی احتیاط کے باعث میرا خیال ہے کہ آج وہ کچھ کر گزرنے کی ٹھان چکے ہیں ۔ اسی لیے میں پھاٹک پر نظر رکھے ہوئے ہوں ۔ جب تمھارے لیے باہر نکلی تھی تو بھی پھاٹک میری نظر میں تھا ۔‘‘ ’’ہو سکتا ہے کہ اگر وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو زیادہ رات گزرنے کے بعد .....‘‘ میری بات ادھوری رہ گئی ۔دروازے کی دستک نے مجھے چونکا دیا تھا ۔ بانو ہنسیں۔’’چونکو نہیں ، کھانا لائی ہوگی لڑکی ۔ میں نے کہہ دیا تھا آج میں ڈائننگ روم میں نہیں، اپنے کمرے ہی میں کھائوں گی ۔ ‘‘پھر انھوں نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔’’آجائو! دروازہ بند نہیں ہے ۔‘‘ بانو نے دروازہ بولٹ نہیں کیا تھا ۔وہ مجھ سے بولیں‘‘ تم بھی کھالو۔‘‘ ’’گھر فون کرکے بتانا پڑے گا کہ .....‘‘ ایک بار پھر میری بات ادھوری رہ گئی ۔ بیس بائیس سال کی ملازمہ کھانے کی ٹرالی دھکیلتی ہوئی اندر لارہی تھی جس کے پیچھے دو آدمی بڑی تیزی سے کمرے میں آگئے تھے ۔ ’’کوئی غلط حرکت کی تو... ..‘‘ ایک آدمی نے دھمکی آمیز انداز میں بات ادھوری چھوڑ دی ۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں ریوالور تھے ۔ کھانا لانے والی لڑکی سہم کر دیوار سے لگ گئی تھی ۔ میں نے اس حیرت میں ایک لمحہ ضائع نہیں کیا کہ کسی کو بھی پھاٹک سے اندر آتے ہوئے نہیں دیکھا جاسکا تھا ۔ مجھے تربیت ہی یہ دی گئی تھی کہ خطرے کے وقت سوچنے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ان دونوں کو بھی توقع نہیں ہوگی کہ ایسا ہوجائے گا ۔ ایسا آخر کیا ہوگیا؟ یہ کل کے اخبار میں پڑھیئے!