آباؤ اجداد۔۲… ہم نے اس سلسلے کے اپنے گزشتہ کالم میں اپنے پردادا کے پردادا میاں جان محمد ؒ (1739ء ۔ 1805ئ) کہ جن کے والد میاں انور علی وِرک،جو شیخوپورہ سے بیس کلومیٹر جنوب واقع ہمارے اصل گاؤں ہوئی کے میں کم و بیش سو مربع زمین کے مالک تھے، حصولِ تعلیم کی غرض سے حافظ آباد کے نواحی گاؤں لویرے میں اپنے زمانے کے معروف عالمِ دین مولانا ولی محمدؒ کہ اس زمانے میں جن کے مدرسے میں ایک سو چالیس حجرے تھے، میں آئے۔ میاں انور کی شرافت، نجابت دیکھ کے مولانا نے دورانِ تعلیم ہی ان کا رشتہ اپنی بہن سے کر دیا، انھی کے بطن سے میاں جان محمدؒ نے جنم لیا۔ اس رشتے کے بعد وہ وقتی طور پر یہیں مقیم ہو گئے۔ اس دور میں اپنی تعلیم انھوں نے دِلّی اور قصور کی معروف درس گاہ مخدوماں سے حاصل کی، جہاں سے بلھے شاہ اور وارث شاہ بھی مستفید ہوئے تھے۔ خطاطی اور دیگر علوم سے متعلق جانکاری کے سلسلے میں ان کے مغل پورہ، لاہور میں واقع وڈے میاں کے درس سے بھی وابستہ ہونے کی تحریری روایات ملتی ہیں۔ فارسی اور پنجابی شاعری سے خصوصی لگاؤ ہونے کی بنا پر سی حرفی، ڈھولا، مرزا صاحباں، قصہ ہیر رانجھا، بارہ ماہ اور اپنے زمانے کی معروف صنف دوہڑہ میں خوب طبع آزمائی کی۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے ایک لاکھ سے زیادہ دوہڑے تصنیف کیے۔ اعظم توقیر کی مرتبہ میاں جان محمدؒ کی کتاب ’رسیلے سخن‘ میں ’دیہاڑے‘ نام کی ایک صنف بھی ملتی ہے، جس میں مہینے کے حساب سے تیس بند ہوتے تھے اور شاعر ہر بند میں محبوب کے عشق و ہجر میں بسر ہونے والے ایک ایک دن کی کیفیات مرحلہ وار بیان کرتا تھا۔ اسی طرح ’تسخیرِکواکب‘ نامی کتاب بھی انھی کے قلم کا شاخسانہ ہے، جس سے میاں صاحب کے علمِ نجوم و فلکیات سے متعلق دلچسپیوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی شعری اور علمی عظمت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پنڈت کالی داس اور پنجابی کے معروف شاعر میاں محمد بخش ان کے دوہڑوں کے بے حد معترف تھے، میاں محمد بخش ان کی بابت لکھتے ہیں: ہِک کوئی جان محمد ہویا رسلے سخن سناندا دوہڑا اوس دا موئے دِلاں وِچ جان محمد پاندا یہ تو نہایت مستند روایت ہے کہ میاں محمد بخش اکثر و بیشتر میاں جان محمدؒ کے مزار پر نہ صرف حاضری دیتے، لوگوں کو قصہ سیف الملوک سناتے بلکہ کئی کئی روز قیام بھی کیا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے قصہ سیف الملوک و بدیع الجمال کا بیشتر حصہ گاؤں لویرے میں واقع اسی دربار میں بیٹھ کر لکھا۔ اس کے جا بہ جا ثبوت ان کے کلام سے بھی ملتے ہیں: ذ۔ ذرا محبت نے کھِچ کیتی، پھیرا وِچ لویریاں پا چلے ڈِٹھا حُب تے حُسن دا باغ کھِڑیا، دن خیر دے تِن لنگھا چلے ’خیر‘کا لفظ یہاں زیادہ بامعنی ہے کہمیاں محمد بخش یہاں میاں جان محمدؒ کے پوتے میاں خیر الدین ذیلدار کے مہمان ہوا کرتے، ایک جگہ لکھتے ہیں: خیر الدین دی خیر محمد بخشا، واہ وا ڈِٹھے نے یار لویریاں دے یہ بات بھی مسلّم ہے کہ میاں بخش کا قصہ سیف الملوک نہ صرف میاں خیرالدین کے اصرار پر کتابی صورت میں چھپا تھا بلکہ 1886ء میں مکتبۂ مصطفائی، لاہور سے چھپنے کا خرچ بھی میاں خیرالدین نے دیا تھا۔ اس نسخے کے اوپر مرقوم ہے۔’’حسبِ فرمائش: میاں خیر الدین ذیلدار‘‘ میاں صاحب کے عقیدت مندوں میں ہندو، مسلم، سکھ، سبھی شامل تھے۔ رنجیت سنگھ کے والد مہان سنگھ کا ایک زمانے میں اس خاندان سے مناقشہ چلتا رہا، بعد ازاں صلح ہو گئی۔ ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ مہاراجا رنجیت سنگھ بھی میاں صاحب کی دعا سے پیدا ہوا تھا۔ رنجیت سنگھ اور مہارانی موراں کی میاں صاحب سے حد درجہ عقیدت سے اس روایت کو تقویت ملتی ہے۔ رانی موراں تو ہر جمعرات کو باقاعدگی کے ساتھ ان کے دربار پہ لنگر تقسیم کرتی رہیں۔ میاں صاحب کے بیٹے میاں شمس الدین کے نام رنجیت سنگھ اور رانی موراں کے کچھ خطوط، ان کی اصل ہینڈ رائٹنگ میں آج بھی ہمارے اعزہ کے پاس محفوظ ہیں۔ میاں جان محمدؒ کی شادی جلال پور بھٹیاں کے قریبی گاؤں مارتھ میں ہوئی۔ اولاد میں پانچ بیٹے میاں شمس الدین، میاں محکم الدین، میاں شرف الدین، میاں فتح الدین اور میاں شہاب الدین تھے۔ آخری دونوں بیٹوں میں میاں فتح الدین مجذوب تھے، میاں شہاب الدین نوجوانی میں فوت ہو گئے۔ پہلے دونوں بیٹوں کی اولاد لویرے ہی میں مقیم رہی۔ میاں شمس الدین وِرک کی اولاد میں سے میاں علی حسین وِرک، میاں قطب الدین وِرک، میاں غلام دستگیر وِرک المعروف ’جاگیردار‘ اور موجودہ میاں فیض الحسن وِرک اور ان کے تینوں بیٹے میاں زاہد وِرک، میاں شاہد وِرک اور میاں احمد وِرک مزار و مضافات کے انتظام و انصرام پہ مامور ہیں۔ اسی طرح میاں محکم الدین وِرک کا پورا قبیلہ بھی یہیں آباد ہے، جن میں میاں نصراللہ وِرک نمایاں ہیں۔ ہمارا خاندان میاں شرف الدین کی اولاد ہے ، جو 1764ء کے لگ بھگ (راقم کی پیدائش سے دو سو سال قبل) لویرے ہی میں پیدا ہوئے۔ نوجوانی میں اپنے زمانے کی جدید تعلیم (فہم القرآن، قانون، صرف و نحو، خطاطی وغیرہ) کے سلسلے میں آٹھ سال دِلّی میں مقیم رہے۔ اپنی سو مربع آبائی زمین کی زمینداری یا ذمہ داری کی بنا پر اپنے خادم صدر الدین کھوکھر عرف صدرو (جسے بعد ازاں حقِ خدمت کے عوض چھے مربع زمین بھی عطا کر دی، یہ خاندان آج بھی ہمارے گاؤں میں مقیم ہے) کی معیت میں دادا کے اصل گاؤں ہوئیکے لوٹ آئے۔ واپس لوٹنے کی ایک وجہ اپنے والد میاں جان محمد ؒ سے سماع کے معاملات سے متعلق بعض اختلافات بھی بتائے جاتے ہیں۔ یہاں پورے علاقے میںاُن کے زہد وورع کے چرچے رہے۔ ان کے حوالے سے بے شمار کرامتیں منسوب ہیں۔ جب ہمارے ایک چچا (میاں حسین علی ذیلدار کے بیٹے) میاں خضر حیات وِرک ایچی سن اور ایف سی کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد نیشنل بنک میں ملازم ہوئے تو لوگوں کی زبانوں کو کچھ سکون ملا لیکن جب میاں خضر نے برادری کے بنک سے قرضہ طلبی اور نادہندگی کو شعار بناتے دیکھا تو روز روز کی بدمزگی سے تنگ آ کر نہ صرف بنک کی نوکری کو خیرباد کہا بلکہ بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی خاطر شیخوپورہ ہی سے ترکِ سکونت اختیار کر لی تو زبانیں ایک مرتبہ پھر حرکت میں آئیں کہ دیکھا بابے نے پُٹ کے مارا ہے، نوکری کیا شہر سے بھی نکال دیا ہے۔ پھر جب لاہور آ کے اُردو سائنس بورڈ کے پاس رہائش رکھنے کے بعد ایچیسن میں پڑھانا شروع کیا تو ایک بار پھر سکون ہو گیا۔ میاں خضر سابق وزیرِ اعلیٰ عارف نکئی کے بہنوئی تھے۔ وہ اور اُن کا بیٹا محمد احمد وِرک دونوں ایچی سونین اور فارمانائٹ بھی رہے۔ (جاری)