سوشل میڈیا کے ہم ناقد بھی ہیں اور کئی حوالوں سے معترف بھی۔ دراصل یہ ہمارے اپنے اوپر بھی ہیں کہ ہم فیس بک وغیرہ میں کون سا حلقہ بناتے ہیں یعنی کن لوگوں کو اپنی فرینڈ لسٹ میں شامل کرتے، کن کو فالو کرتے ہیں۔ اسی طرح ٹوئٹر پربھی ضروری نہیں کہ آپ متنازع لوگوں ہی کوفالو کریں، آپ چاہیں تو اپنی پسند کے رائٹرز ، دانشوروں،سکالرز وغیرہ کو بھی فالو کر سکتے ہیں۔ یہی معاملہ یوٹیوب کا ہے۔ یوٹیوب پر ایسے بہت سے کمال قسم کے لیکچرز ، پوڈ کاسٹ، مکالمے موجود ہیں، جن سے آپ دانش کشید کر سکتے ہیں، اچھی معیاری تفریح حاصل کرنے کے ساتھ اپنی ادبی پیاس بھی بجھا سکتے ہیں۔ بات وہی انتخاب یعنی چوائس کی ہے۔ اس حوالے سے سمجھداری اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ خیر چند دن قبل ایک فیس بک فرینڈ قاسم سورائیہ نے چند عمدہ نکات اپنی پوسٹ میں نقل کئے جو ان کے خیال میں مردوں کو خاص طور سے ملحوظ خاطر رکھنے چاہئیں۔ انہوں نے خواتین کونجانے کیوں مخاطب نہیں کیا، حالانکہ ان میں سے کئی باتیں مردوں کے ساتھ عورتوں کے لئے بھی مفید ہیں۔ میں نے اسے اپنی پوسٹ کا حصہ بنایا تو کمنٹس میں کئی لوگوں نے مزید مفید اضافے کئے۔ میرے نزدیک اس طرح کی چیزیں سوشل میڈیا کے جواہر ہیں، انہیں استفادے کے لئے ہی اپنے قارئین سے شیئر کر رہا ہوں۔ میں خود بھی اس طرح کی چیزوں پر لکھتا رہتا ہوں ۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کومثبت بات بتائی اور سمجھائی جائے اور ایک طرح سے تذکیر کا کام ہوتا رہے۔ قاسم سورائیہ لکھتے ہیں : ’’مرد حضرات زندگی میں اصول بنا لیں۔۔۔ کہ 1۔ بیٹھے ہوئے کسی سے ہاتھ نہیں ملانا۔۔۔ اسے غرور کی علامت سمجھا جاتا ہے۔(یاد رہے کہ اس میں اصل اشارہ تکبر کی طرف ہے ،مقصد یہ ہے کہ بیٹھے بٹھائے تکبر کے ساتھ ہاتھ آگے بڑھانے کے بجائے تپاک سے ملنا چاہیے ۔) 2۔ جو آپ کے پیچھے ہے، اس کی حفاظت کرنا اور جو آپ کے ساتھ ہے، اس کی عزت کرنا۔ 3۔ خرافات(غلط تعلق) کے لیے عورتوں کے پیچھے کبھی مت جانا، عزت،صحت، دولت سلامت رہے گی۔ 4۔ جب کہیں مہمان گئے ہوں تو کھانے کو کبھی برا نہ کہنا۔ 5۔ جو چیز آپ نے خریدی نہیں، اس کا آخری نوالا خود نہ کھانا۔ 6۔ دوران گفتگو اور محفل میں اپنا موبائل جیب میں ہی رکھنا اچھا ہے۔ 7۔ دوسروں کی بات غور سے سننا۔ ہاں، ناں میں جواب دینا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا۔ 8۔ جہاں دعوت نہ دی گئی ہو، کبھی مت جانا۔۔۔ خودداری اور عزت نفس بہت ضروری ہے۔ 9۔ کوئی بھی موقع ہو، حتیٰ کہ جب بھی گھر سے نکلیں، آپ کا لباس صاف ستھرا اور دھلا ہوا ہونا چاہیے۔ 10۔ جو کام آپ نے نہیں کیا، اس کا کریڈٹ لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ 11۔ اگر غلطی ہو جائے تو تسلیم کرنے سے آپ کی وقعت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں۔ 12۔ گفتگو اور تحریر میں آپ کے الفاظ اور گرائمر بہترین ہونے چاہییں۔ 13۔ جب بھی گھر سے نکلیں، آپ کا بٹوہ (والٹ )اور کچھ رقم آپ کی جیب میں لازمی ہونی چاہیے۔ 14۔ دیانت داری واقعی بہترین حکمت عملی ہے۔۔۔ ایمان والے ہی امانت دار ہوتے ہیں۔ 15۔ کسی سے تعلقات کی بھیک کبھی نہ مانگنا، خود میں قابلیت پیدا کریں کہ لوگ آپ کے ساتھ جڑنا چاہیں۔ اس پوسٹ پر ایک صاحب نے خوبصورت فقرہ کہا، وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، ’’جب کسی کے ہاں جائو تو گھر کے اندر اپنی آنکھ اور باہر نکل کر اپنی زبان کی حفاظت کرو۔‘‘ یعنی گھر میں تانکا جھانکی سے احتیاط کی جائے اور باہر نکل کر گھر والوں کے حوالے سے کوئی منفی بات یا غیبت وغیرہ قطعی طور پر نہ کی جائے۔ ہمارے ایک فیس بک فرینڈ صاحبزادہ قمر نے بھی اس میں چند عمدہ اخلاقی اصولوں کا اضافہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں:’’ کسی شخص کو مسلسل دو بار سے زیادہ کال مت کریں۔۔ اگر وہ آپکی کال نہیں اٹھاتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی اور ضروری کام میں مصروف ہیں۔ کسی سے لی گئی ادھار رقم انکے یاد دلانے سے پہلے ادا کردیں۔ایک روپیہ ہو یا 1 کروڑ یہ آپ کے کردار کی پختگی دکھاتا ہے۔ کسی کی دعوت پر مینو پر مہنگی ڈش کا آڈر نہ دیں۔ اگر ممکن ہو تو ان سے پوچھیں کہ آپ کے لئے کھانے کا اپنی پسند کا آرڈر دیں۔ مختلف سوالات کسی سے مت پوچھیں جیسے 'اوہ تو آپ ابھی تک شادی شدہ نہیں ہیں' یا 'آپ کے بچے نہیں ہیں' یا 'آپ نے گھر کیوں نہیں خریدا؟ خدا کے لئے ایسا نہ کیا کریں۔ان سب کے بارے میں جاننا آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر آپ کسی دوست کے ساتھ ٹیکسی لے لیں اور کرایہ وہ ادا کرتا ہے تو آپ اگلی بار ادا کریں یا مل بانٹ کر ادا کریں! مختلف سیاسی نظریات کا احترام کریں۔ لوگوں کی بات نہ کاٹیں بلکہ انہیں اپنی بات مکمل کرنے کا موقع دیجئے۔ اگر آپ کسی کو تنگ (مذاق) کر رہے ہیں، اور وہ اس سے لطف اندوز نہیں ہو رہا تو رک جائیں اور دوبارہ کبھی ایسا نہ کریں۔ جب کوئی آپکی مدد کرے تو آپ اسکا شکریہ ضرور ادا کریں۔ کسی کی تعریف کرنی ہو تو لوگوں کے سامنے کریں اور تنقید تنہائی میں کیجئے۔ کسی کے وزن پر کوئی تبصرہ کرنے کی کوئی تْک نہیں بنتی۔. بس کہیں ، "آپ اچھے نظر آتے ہیں " اگر وہ وزن کم کرنے کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو آپ بھی کیجئے۔ہر انسان اپنی بہتری جانتا ہے، آپ خواہ مخواہ ضرورت سے زیادہ ان کے مخلص نہ بنیں۔ اخلاص کے پردے میں آپ دراصل ان کی دل آزاری کر بیٹھیں گے۔ جب کوئی آپ کو اپنے فون پر ایک تصویر دکھاتا ہے، تو بائیں یا دائیں سوائپ نہ کریں۔ آپکو کچھ نہیں پتہ کہ آگے کیا ہے۔ اگر کوئی آپ کو بتائے کہ اسے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے، تو یہ نہ پوچھیں کہ کس لئے؟ بس آپ اچھی صحت کی دعا دیں۔ اگر وہ اس کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو آپ بھی کیجئے۔ جس طرح آپ ایک سی ای او کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں اسی طرح اپنے آفس بوائے اور چوکیدار کے ساتھ پیش آئیں۔ اپنے سے کم تر حیثیت کے لوگوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ آپکے کردار کا آئینہ دار ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ براہِ راست بات کر رہا ہے، تو آپ مسلسل اپنے موبائل فون کی طرف نہ دیکھیں۔ جب تک آپ سے پوچھا نہ جائے مشورہ نہ دیں۔ کسی سے عرصے بعد ملاقات ہورہی ہو تو ان سے، عمر اور تنخواہ نہ پوچھیں۔ جب تک وہ خود اس بارے میں بات نہ کرنا چاہے۔