میں ان دنوں ایک بڑے قومی روزنامے کے میگزین سے وابستہ تھی میگرین کے لیے ایک فیچر کرنے کو دیا گیا ہوا جس کا موضوع تھا دنیا بھر میں جنگوں نے ادب پر کیا اثرات مرتب کیے ۔کچھ تو انگلش لٹریچر کی طالبعلم کی حیثیت سے مجھے پتا تھا کہ دو عالمی جنگوں نے اس خطے کے ادب کے رہنے والوں کو کیسے متاثر۔کیا اور اس کے نتیجے میں کس طرح کا ادب تخلیق ہوا ہے۔بات یہاں آکر رکی کہ سقوط ڈھاکہ کے سانحے نے یہاں کے شعر وادب کو کیسے متاثر کیا۔اس میں مجھے مواد اکھٹا کرنے میں مشکل پیش آئی اس وقت انٹرنیٹ آ چکا تھا لیکن اس کا استعمال محدود تھا، بہرحال اس موضوع پر معلومات اکٹھی کرنے کے لئے مجھے لائبریریوں کا چکر لگانے پڑے ۔میں نے مظفر محمد علی سے مدد طلب کی انہوں نے کہا کہ ایک کتاب کا مسودہ ہمارے پاس کاپی پیسٹنگ کے مرحلے پر موجود ہے اگر آپ مسودے کو اس صورت میں پڑھ سکتی ہیں تو میں آپ کو مسودہ دے دیتا ہوں۔ یہ دل چیر دینے والے لہو رنگ افسانے جو بوجوہ اب تک کتاب کی صورت میں منصہ شہود پر آنے سے محروم رہے اور شاید پبلشر اسے چھاپنے سے انکاری تھے اور بہت سے سالوں سے مسود ایسی حالت میں موجود تھا میں نے وہ ان سے لے لیا اور میں ان دنوں ہوسٹل میں رہتی تھی ۔جو جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ بٹر پیپر پر پیسٹنگ کا مرحلہ کیا ہوتا ہے اس پر تحریر کو پڑھنا آسان نہیں ہوتا۔ افسوس کے ذہن سے مصنف کا نام بھی نکل چکا پھر یہ بھی خبر نہیں کہ کیا یہ لہو رنگ افسانے کتاب کی صورت منظر عام پر کبھی آئے بھی کہ نہیں۔یہ پرانی بات ممتاز ادیبہ سلمیٰ اعوان کا ناول تنہا پڑھتے ہوئے یاد آئی۔جس کے آخر میں دو صفحات کا ایک نوٹ انہوں نے دیا ہے۔ ڈھاکہ کے پس منظر میں لکھا جانے والا ناول تنہا 1972 میں لکھا جا چکا تھا لیکن اس کتاب کی صورت ڈھالنے بارہ سال کا عرصہ لگا۔ کوئی پبلشر اسے چھاپنے کو تیار نہ ہوتا ، کچھ مشروط طور راضی ہوئے کہ ناول کے فلاں فلاں حصے حذف کردیں ۔ادب کے پیرائے میں جو تلخ حقیقتیں پوری سچائی سے بیان ہوتی ہے اور سچ ہضم کرنا آسان نہیں ہے۔ ساری تگ و دو میں 12 برس بیت گئے بالآخر اس لازوال ناول کو اردو ڈائجسٹ کے اعجاز احمد قریشی نے اسے شائع کیا۔سلمی اعوان ڈھاکہ یونیورسٹی پڑھنے کے لیے گئی تھیں۔ یہ ان کے اپنے مشاہدات پر مبنی ناول ہے جسے انہوں نے نہایت دلنشیں پیرائے میں لکھا۔پڑھتے ہوئے ایک طلسمی فضا قاری کے اطراف بنتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پڑھنے والا بنگال کی گنگناتی ندیوں ،سندر بن کے جنگوں اور نیلی دھند میں کھوئے ہوئے چٹاگانگ کے پہاڑیوں کے درمیان خود کو سحر زدہ پاتا ہے۔ آغاز سے انجام تک یہ ناول پڑھنے والے کو اپنے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔ناول کا تانا بانا دو مر کزی کرداروں اجتبا الرحمن عرف شلپی اور سمعیہ علی عرف سومی کے گرد بنا گیا ہے۔ سومی مغربی پاکستان سے ڈھاکہ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لئے جاتی ہے وہ سیاسیات کی طالبہ ہے وہ ایک نڈر حساس اور باشعور لڑکی ہے جو ایک طرف تو مشرقی پاکستان میں غربت کے حالات دیکھ کر کڑھتی ہے تو دوسری طرف شلپی جیسے قوم پرست نوجوانوں کی مغربی پاکستان سے نفرت اور تعصب دیکھ کر آزردہ ہوتی ہے۔نظریات کے بعض اختلافات کے باوجود محبت کی کونپل دو کرداروں کے درمیان پھوٹتی ہے شیلپی سومی کو پروپوز کرتا ہے مگر وہ اس محبت کو صرف اس شرط پر قبول کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے کہ وہ مغربی پاکستان سے نفرت اور تعصب کے اپنے نظریات سے دستبردار ہوجائے۔شلپی جیسے نوجوان دشمن کے ہاتھوں میں آلہ کار بن کے رہ جاتے ہیں۔نظریات کے شدید اختلاف کے باوجود سومی اور اجتبا الرحمن کے درمیان محبت کی کونپل پھوٹتی مگر محبت کا یہ شہر بسنے سے پہلے ہی اجڑ جاتا ہے۔ اس ناول میں مشرقی پاکستان کا لڑکا اور مغربی پاکستان کی لڑکی دو طاقتور علامتوں کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔اور انہیں دونوں علامتوں کے ذریعے سلمیٰ اعوان سقوط ڈھاکہ کی اس دلخراش کہانی کو بیان کرتی ہیں جب دلوں میں دشمنوں نے نفرت ڈالی غلط فیصلوں سے بدگمانیاں پیدا ہوئیں ہوگئے ۔جب ہم ایک دوسرے کے خلوص کو نہ سمجھ سکے ، نفرت و تعصبات اور بدگمانیوں کے خلیج آپس میں حائل ہوتی گئی اور اس صورت حال کو دشمن نے اپنے حق میں استعمال کیا۔ناول کے دلکش پیرائے میں سلمیٰ اعوان نے دونوں طرف کے سیاسی اور سماجی حالات کو بیان کیا مغربی اور مشرقی پاکستان کے رہنے والوں کے دلوں کی بدگمانیوں ،سوالوں اور تعصبات پھر سیاست دانوں، بیوروکریسی اور فوج کا کردار کیسے پاکستان دولخت ہونے کا سبب بنے۔نہایت دل پذیر انداز میں لکھا ہوا یہ ناول ایک تاریخی دستاویز ہے۔ بلاشبہ یہ اردو ادب کا ایک بڑا ناول ہے۔ 1971کا سولہ دسمبر ہمارے لیے پچھتاووں اور رنج میں ڈوبا ہوا تھا اور پھر بہت سالوں کے بعد دو ہزار چودہ کا 16دسمبر ایک دفعہ پھر ہمیں روند کر لہو لہان کرگیا۔16 دسمبر کا دن ہمارے اجتماعی قومی بدن میں ایک خنجر کی طرح پیوست ہے ہماری نسل نے سقوط ڈھاکہ تو نہیں دیکھا لیکن ہم نے اے پی ایس کا دلخراش اور کبھی نہ بھولنے والا سانحہ دیکھا ہے آہ۔۔۔جس کی یاد روح پر تازیانے لگاتی ہے ۔ہماری قومی تاریخ میں 16 دسمبر کا دن ہماری اجتماعی قومی بدن کے رستے ہوئے زخموں سے طلوع ہوتا ہے میرا تعلق اس نسل سے ہے جس کی آنکھ پاکستان ٹوٹنے کے سانحے پر اس طرح نم نہیں ہوتی ، لیکن اے پی ایس سانحے کی دلخراش یاد آنکھوں کو آج بھی اشکبار کردیتی ہے۔آج کے دن میں پشاور کے ان والدین سے غم گساری کا اظہار کرتی ہوں جنہوں نے اپنے لخت جگر کھوئے۔۔ہم ان کے دکھ کی گہرائی کو جانچ نہیں سکتے لیکن ہاں اس ناقابل بیان درد میں پوری قوم ان کے ساتھ اشکبار ہوئی۔۔ ہم نے اپنے بچوں کو جس طرح کھویا یہ غم آج بھی ہمارے دلوں میں خنجر کی طرح پیوست ہے۔