زندگی میں کوئی تخلیقی اظہار سے جڑا ہوا مشغلہ ہمارے احساس اور شعور کی ایک خاص جگہ کو بھرتا ہے یہ جگہ خالی رہ جائے تو روح پر بوجھ بڑھ جاتا ہے، حساس دلوں کو ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کی سی کیفیت گھیر لیتی ہے۔ اور وجہ سمجھ نہیں آتی کہ سب کچھ ہوتے ہوئے ہم زندگی کے لطف سے اور اس کے اصل جوہر سے محروم کیوں ہیں۔اس کی وجوہات اور بھی کئی ہو سکتی ہیں لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری زندگیوں میں تخلیقی اظہار سے جڑا ہوا کوئی مشغلہ نہیں ہوتا۔ روزگار اور ذمہ داریوں کے گھن چکر میں تخلیقی اظہار اور حس جمالیات کا خانہ خالی رہ جاتا ہے،معاشی اور سماجی مسائل کی بہتات زندگی کو بوجھل کرتی ہے، یہ سماجی اور معاشی بوجھ انسان کو زندگی کے کسی لطیف پہلو کی طرف توجہ کرنے سے روکے رکھتے ہیں۔یہ تو ان لوگوں کی بات ہوئی جن پر معاشی مجبوریاں ہیں بہرحال ایک طبقہ ایسا بھی ہے ،جو آسودہ زندگی گزار رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی زندگیوں میں اگر جھانکیں تو کوئی تخلیقی مشغلہ نظر نہیں آتا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ کسی کو نہیں اور اس پہ کبھی بات بھی نہیں ہوتی۔ہمارے سماج میں ڈرائنگ کرنا، رنگوں سے کھیلنا رنگ بھرنا صرف اور صرف بچوں اور وہ بھی چھوٹے بچوں کی ایک سرگرمی سمجھی جاتی ہے۔ جوں جوں بچے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے بڑی جماعتوں میں جاتے ہیں،کسی بھی قسم کی تخلیقی سرگرمی ان کے نصاب سے خارج ہوجاتی ہے، بس ان کے اوپر نمبر حاصل کرنے کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس عمر میں بچے جب ڈپریشن اور اینگزائٹی میں آتے ہیں تو وہ غلط چیزوں میں پناہ لیتے ہیں۔یہ احساس مجھے بہت عرصے کے بعد ہوا میں خود اس طرف بہت دیر کے بعد آئی۔ میرا شمار ان طالبعلموں میں ہوتا تھا جو بہت پڑھاکو ہوتے ہیں۔اور کہیں نہ کہیں ان کے ذہنوں میں یہ خیال راسخ ہوتا ہے کہ پڑھائی سے ہٹ کر کسی مشغلے کو وقت دینا وقت کا زیاں ہے۔ہاں فارغ وقت میں ٹی وی دیکھ لیں یا کوئی کتاب رسالہ پڑھ لیں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ چند سال پیشتر جب میں نے اپنی زندگی میں مسلسل پروفیشنل کام اور گھر کے ذمہ داریاں ساتھ ایک بے کیفی اور یکسانیت کا بوجھ محسوس کیا تو میں خود بخود رنگوں اور کینوس کی طرف مائل ہوئی ،یو ٹیوب سے پینٹنگز کی مختلف ویڈیو دیکھتے ہوئے پینٹنگ سیکھنا شروع کردی۔پھر رنگ برش پیلٹ نائف کینوس گھر میں بکھرے نظر آنے لگے۔ اس کے ساتھ آرٹ اور کرافٹ کئی شکلوں میں مجھے اچھا لگنے لگا چیزوں کو ری سائیکل کرنے مجھے مزا آنے لگا۔ ناکارہ چیزوں کو ری سائیکل کرنے کا شوق پیدا ہوا ۔کچھ عرصے خود کو باغبانی سے بھی جوڑا جو اس دنیا کا خوبصورت ترین مشغلہ ہے کیونکہ یہ آپ کو فطرت سے جوڑتا ہے۔ آپ کا اپنے رب کے ساتھ رشتہ مضبوط ہوتا ہے آپ ایک پھول کھلنے پر بھی اللہ کی قدرت پر حیران ہوتے ہوئے سوچتے ہیں پھول تو خاکداں سے آتے ہیں رنگ ان میں کہاں سے آتے ہیں ۔ایک ٹی پارٹی میں شریک خواتین سے میں نے پوچھا کیا آپ کی کوئی ہابی ہے ؟ گھر کے کاموں کے علاوہ اور کیا کرتی ہیں۔ کسی کے پاس کوئی کوئی خاص جواب نہیں تھا ۔ دس خواتین میں سے صرف ایک نے کہا کہ میں کبھی کبھار رسالے پڑھتی ہوں،بیشتر کا جواب یہ تھا کہ یہ تو کبھی ہم نے سوچا ہی نہیں کہ ہم نے اپنے لئے بھی کچھ کرنا ہے۔ مختلف بڑے ادیبوں کی زندگیوں کے میں جھانکا تو پتا چلا کہ یہ لوگ اپنی زندگی میں کسی نہ کسی مشغلے سے جڑے رہے ٹیگور کو باغبانی کا شوق تھا۔مشہور ناول نگار وکٹر ہیوگو نے ناول لکھنے کے علاوہ ا4 ہزار ڈرائنگز بنائیں۔بہت کم لوگ اس کی شخصیت کے اس پہلو کو جانتے تھے۔ اپنی شخصیت کے اس تخلیقی اظہار کو وہ عام پبلک کے سامنے لانے سے گریز کرتا تھا کیونکہ اس کو لگتا تھا کہ اس سے اس کا ادبی پہلو پھیکا پڑھ جائے گا لیکن یہ بات سچ ہے کہ اس کی ڈرائنگ کو اس زمانے کے بڑے بڑے مصوروں نے سراہا تھا۔ مشہور امریکی شاعرہ ایملی ڈکسن کو بیکنک کا بہت شوق تھا اور انہوں نے بیکنگ میں انعامات بھی حاصل کیے ، 1856 میں انہوں نے بیکنک شو میں بریڈ بنانے میں پہلا انعام حاصل کیا، وہ اپنے خاندان اور دوستوں کو بلا کر اپنے بیک کیے ہوئے کیک اور کھانا کھلا کر بہت خوش ہوتیں۔ اردو ادب کے صاحبِ اسلوب افسانہ نگار نیرمسعود کو باغبانی کا بہت شوق تھا۔ نامور کالم نگار ہارون رشید صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ مجھ سے اچھا سبزی گوشت کوئی نہیں بنا سکتا پھر انہوں نے شلجم گوشت کی اپنی خاص ترکیب بھی بتائی۔ بیکنگ اور کھانا تو میں روٹین میں بناتی ہوں اس لیے لیکن یہ میرا مشغلہ نہیں کام ہے۔مشغلہ اس کام کو کہتے ہیں جو آپ اپنی ذمہ داری سے ہٹ کے اپنے دل کو خوش کرنے کے لیے کریں۔ایک امریکی ناول نگار جس نیں نے بیسٹ سیلر ناول لکھے اسے ٹکٹیں جمع کرنے کا شوق تھا وہ کہتی ہیں کہ جب میں لکھتے لکھتے تھک جاتی ہوں تو میں ایک گھنٹہ ٹکٹوں کے البم کے ساتھ گزارتی ہوں اور اس ایک گھنٹے میں میری لکھنے کی تخلیقی صلاحیت تازد دم ہوجاتی ہے۔مختلف طرح کے تخلیقی مشاغل ذہنی بوجھ کو کم کرتے ہیں اور آپ کو زندگی میں ایک لطیف پہلو سے آشنا کرتے ہیں کام سے ہٹ کر مشاغل ہماری زندگی کے مشاہدے اور تجربے کو پھیلاتے ہیں ۔ آپ اپنی ذات کا تخلیقی اظہار کرکے اچھا محسوس کرتے ہیں۔وہ وقت جو آپ کسی تخلیقی مشغلے میں صرف کرتے ہیں اس میں۔ آپ کا ذہن بلا وجہ کی فکروں سے آزاد ہوکے mindfulness کے تجربے سے گزرتا ہے۔ معاشی مسائل، سماجی اور سیاسی انتشار کے دور میں سوشل میڈیا سے دور کسی تخلیقی مشغلے وقت میں گزارنا بہت ضروری ہے۔