وزیر اعظم کے ہاتھوں بہاولپور میں قومی صحت کارڈ کے افتتاح کے بعد پنجاب بھر میں لوگوں کو بلا تخصیص مفت علاج کی سہولت دینے کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور صوبائی وزیر خزانہ بھی موجود تھے۔ چونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت صوبائی شعبہ ہے، اس میں خطیر رقم، چار سو ارب روپے، کا مختص ہونا یقیناً ایک دلیرانہ قدم ہے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا کے بعد تحریک انصاف کی عملداری میں کام کرنے والادوسرا صوبہ ہے جہاں شہریوں کے لیے بلا تخصیص صحت کارڈ کی سہولت بہم پہنچائی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور بلوچستان کے شہریوں کو بھی اس سہولت سے بہرہ مند کیا جائیگا۔ وفاقی دارلحکومت میں قومی صحت کارڈ کا اجرا انہوں بہاولپور کے دورے سے پہلے کردیا تھا۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں منعقد ہ تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم نے بجا طور پرصحت مند پاکستان کی تعمیر کے سلسلے میں اپنی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے قدم کو انقلابی قرار دیاہے۔ ایک طرف سرکاری ہسپتالوں پرخطے میں بیماریوں کے بڑھتے بوجھ کو کو کم کرنے کا موقع ملے گا، دوسری طرف نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ سابقہ شاہی ریاست ، موجودہ بہاولپور ڈویژن کے تینوں ضلعی ہیڈ کوارٹرز (بہاول پور، رحیم یارخان اور بہاولنگر) میں موجود بیسیوں پرائیویٹ ہسپتالوں میں اب دس لاکھ روپے تک مفت علاج کی سہولت دستیاب ہوگی۔ مخصوص حالات کی وجہ سے بہالپور کا خطہ بیماریوں کی لپیٹ میں ہے جن میں کالا یرقان، کینسر اور دل کے امراض سر فہرست ہیں۔ اس ناگہانی صورت حال میں پنجاب میں ایک آمر کے حکم اور بعد ازاں نام نہاد جمہوری پارٹیوں کے وضع کردہ آئین کے ذریعے مدغم کی گئی پاکستان کی امیر تین ریاست میں وبائیں کی صورت میں در آئیں۔ جان لیوا بیماریوں کے علاج کا سارا بوجھ سرکاری ہسپتالوں پر تھا۔ ڈاکٹروں کا دھیان ڈیوٹی پر کم ، پرائیویٹ کلینکس پر زیادہ تھا جو سرکاری ہسپتالوں میں اچھی سہولیات کی بھی کنجی بن چکے تھے۔ نجی شعبہ میں قائم ہسپتالوں کی سہولت سے امیر طبقہ ہی فائدہ اٹھا رہا تھا۔ غریب اور متوسط طبقہ یہاں اپنی جمع پونجی خرچ کرنے کے بعد لاہور، ملتان اور راولپنڈی تک دھکے کھا رہا تھا۔ یوں موجودہ حالات میں بہالپور کے شہریوں کو قومی صحت کارڈ کا اجرا لائقِ تحسین ہے۔ یہ سہولت بہالپور کو بہتدیرسے دی گئی، شکوہ تھا بھی تو دور ہوگیا ہے ۔ اس خطے نے ملک کے قیام اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا مگر آج غربت اور بیماری کا تاج اس کے سر پر ہے۔ بہر حال، دیر آید درست آید۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آیا چار سو ارب روپے سے دی گئی پنجاب حکومت کی سہولت پائیدار بھی ہوگی یا پھر حکومت کی تبدیلی سے سب چوپٹ ہو جائیگا۔ لوگوں نے جو سکھ کا سانس لیا ہے اس کا تحریک انصاف کی حکومت کو یقینی طور پر انتخابی فائدہ ہوگا۔ اس سے پہلے کورونا وائرس کے دوران دی گئی مالی اعانت میں بھی سخاوت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ میرا بہاول پور آنا جانا رہتا ہے۔ وبا کے دوران مالی اعانت سے ہوئی لوگوں کو خوشگوار حیرت کا گواہ ہوں۔ قومی صحت کارڈ کے اجرا پر لوگ شکر گزار ہیں۔ بہاولپور کے عوام کی بہت ساری شکایات اور مشکلات صوبائی اسمبلی میں نئے صوبوں کے حوالے سے پاس ہونے والی قراردادوں اور با اختیار مقامی حکومتوں کے قیام سے دور ہو جائینگی۔ لیکن صحت کا معاملہ پیچیدہ ہے۔ جان لیوا بیماریوں کے وبائی صورت اختیار کرنے کے پیچھے وہ ماحولیاتی تباہی ہے جو اس خشک علاقے کو سیراب کرنے والے واحد دریا ،ستلج ،کے بھارت کے ہاتھوں فروخت سے ہوئی ہے۔ اس دریا میں سالانہ اوسطاً پچیس ملین ایکڑ فٹ پانی آتا تھا۔ بیٹ اور بیلوں میں خوشحالی تھی۔ تازہ مچھلی، دالیں اور گوشت اور دودھ سستا اور وافر مقدار میں میسر تھا۔ زیر زمین پانی ستلج کے مشرق میں موجود چالیس کلومیٹر کی سر سبز پٹی میں بیس سے پچاس فٹ کی گہرائی تک مل جاتا تھا۔ روہی کے روہیلے خشک مہینوں میں اپنے مویشی اس سال بھر بہنے والے دریا کنارے ہانک کر لے جاتے تھے کہ پانی بھی ملے گا اور چارہ بھی۔ دریا خشک ہونے سے غذائی تحفظ کے تمام عوامل مخدوش ہو گئے ہیں۔ بیماریوں کا سب سے بڑا سبب زیر زمین پانی کی سطح کا کم ہونا بھی ہے۔ کالا یرقان ، کینسر اور اندھا پن جیسی بیماریاں عام ہیں۔ دل کے امراض اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا راز بھی یہی ہے۔ ستلج بحالی کے لیے کوشاں سابق سینیٹر محمد علی درانی کے بقول ظلم یہ ہے اس دریا کی ماحولیاتی زندگی کے لئے درکار پانی سندھ طاس کے ناجائز معاہدے کے ذریعے روک لیا گیا ہے۔ بھارت کو اس امر کا پابند بھی نہیں بنایا گیا کہ وہ کم ازکم دریا میں اپنی زرعی اور صنعتی آلودگی کو تو نہ بہائے کہ میلوں میل یہ پانی سیاہ مائع کی صورت میں میں بہتا اور خطرناک بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ عالمی قوانین کی دھجیاں تو اڑاہی دی گئی ہیں کہ بھارت نے جہاں صرف زرعی پانی کا استعمال کرنا تھا اور وہ بھی یوں کے دریا کی روانی تک کو فرق نہ پڑے، معاہدے سے ماحولیاتی زندگی کو درکار پانی بھی روک لیا اور پاکستان کو اس امر کا پابند بھی بنا دیا کہ وہ اس ملک سے آنیوالے آلودہ پانی کو بھی نہیں روکے گا۔ پاکستان سفارتی سطح پر یہ توکر سکتا ہے کہ بھارت اس ماحولیاتی قتل عام سے باز رہے۔ صاف پانی نہیں چھوڑتا تو آلودہ پانی بھی اپنے پاس ہی رکھے۔ بھارت کی قبضے میں آئے راوی کی صورت حال بھی یہی ہے۔ بہالپور کی جو حالت زار ہے، وہی مرکزی پنجاب کی بھی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کورونا وبا، ماحولیاتی تبدیلی اور معاشی انحطاط سے نمٹنے میں اپنی حکومت کی کامیابیاں گنوائیں۔ خاطر خواہ کامیابی کے لیے آبی آلودگی کا ہنگامی بنیادوں پر خاتمہ ضروری ہے کہ یہ غذائی عدم تحفظ اور بیماریوں کی جڑ ہے۔لازم ہے کہ نہ صرف صوبے اور خود مختار مقامی حکومتیں اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی پابند ہوں بلکہ سفارتی کوششیں بھی بروئے کار لائی جائیں۔ نئے پاکستان کی معیشت اور صحت دونوں کے لیے یہ از حد ضروری ہے۔