امریکی صدر ٹرمپ کے متعلق میری رائے ، رائے عامہ سے مختلف رہی ہے جس کے برملا اظہار سے میں نے کبھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کی۔وہ رائے عامہ جو میڈیا بناتا ہے اور وہ میڈیا جس کے صدر ٹرمپ ہمیشہ ناقد رہے ہیں حتی کہ اس کے لئے انہوں نے ایک اصطلاح فیک نیوز متعارف کروائی ہے۔قریبا روز صبح اپنی پہلی ٹویٹ میں وہ فیک نیوز کے لتے لینانہیں بھولتے۔کرسمس کی خوشگوار صبح بھی وہ اپنے اس فرض سے غافل نہیں ہوئے اور کہا:سب کو کرسمس کی مبارک باد:حتی کہ فیک میڈیا کو بھی۔ان کی میڈیا کے متعلق یہ رائے کیوں ہے اس کا پس منظر خاصا پیچیدہ اور طویل ہے۔اتنا پیچیدہ کہ بارہ سو الفاظ کے کالم میں اسے سمیٹنا تقریبا ناممکن ہے۔مختصرا عرض ہے کہ یہی بین الاقوامی میڈیا جو چند سرمایہ داروں کی ملکیت ہے من چاہی رپورٹیں، چارٹ،ریسرچ پیپر اور تجزئیے شائع کرتا ہے اور حکومتوں پہ دباو ڈال کر انہیں من مانے فیصلے کرنے پہ مجبور کرتا ہے بالخصوص اس وقت جب ان فیصلوں کا تعلق جنگ اور اس سے وابستہ کاروبار سے ہو۔ میڈیا اور اسلحہ ساز کمپنیوں کا جو دنیا میں کبھی امن نہیں چاہتیں بڑا پرانا گٹھ جوڑ ہے۔ 24 دسمبر 2002ء کو جب ٹونی بلئیر انٹیلیجنس ایجنسیوں کی جھوٹی رپورٹوں کی بنیا د پہ، جس پہ بعد ازاں اس زود پشیماں نے معافی بھی مانگی ، برطانوی پارلیمنٹ میں عراق پہ حملے کے فیصلے کا اعلان کررہے تھے اس کے چند گھنٹوں بعد ہی برطانوی اخبارلندن ایوننگ اسٹینڈرڈ نے سرخی جمائی:حملے سے پینتالیس منٹ بیشتر۔اس کے ساتھ ہی معروف برطانوی میڈیاآئیکون آلاسٹیئر کیمپ بیل کا میڈیا گروپ عراق میں صدام حسین کی ـ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف کمر کس کے میدان میں آگیا۔ اگلے چند دنوں میں میڈیا نے وہ شور مچایا کہ سچ کی آوازکہیں دب کر رہ گئی۔ آلاسٹیر کیمپ بیل اس ساری مہم میں پیش پیش رہا جس کی مرتب کردہ رپورٹیں، دسمبر ڈوسئیراور عراق ڈوسئیر جو جھوٹی اطلاعات پہ مشتمل تھیں اور عراق پہ حملے کی وجہ بنیں،نوے کی دہائی سے ٹونی بلیئر کے ترجمان کے فرائض انجام دے رہا تھا۔بعد ازاں ٹونی بلئیر کے دور حکومت میں ڈاوننگ اسٹریٹ کا ڈائریکٹر آف کمیونیکیشن اور اسٹریٹجی اور ترجمان بھی رہا۔اسی رپورٹ کی وجہ سے ٹونی بلئیر اور اسے انکوائری کا سامنا کرنا پڑا جس میں دونوں باعزت بری ہوگئے۔ عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد ٹونی بلیئر کو تو حیا آگئی اور انہوں نے خدا جانے کس سے عراق پہ حملہ کرنے اور اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کی معافی طلب کرلی۔انہوں نے اعتراف کیا کہ صدام حسین کے خلاف یہ تمام رپورٹیں جھوٹ پہ مبنی تھیں۔ برطانوی اور امریکی میڈیا کو البتہ اس کی آج تک توفیق نہیں ہوئی کہ انہوں نے کس طرح ایک ملک پہ چڑھائی کرنے کے لئے دنیا بھر میں اس کے خلاف فضا بنا دی تھی۔یہی صورت حالات افغانستان پہ امریکی چڑھائی کے لئے تشکیل دی گئی اور میڈیا کے ذریعے جنگ کی ایسی فضا بنائی گئی جس میں افغانستان پہ حملہ ناگزیر ہوگیا۔ بظاہر یہ حملہ نائن الیون کے مرکزی ملزم اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے پہ طالبان کے خلاف بنایا گیا لیکن اس سے قبل ہی مغربی میڈیا طالبان کے برسر اقتدار آجانے کے بعد مغربی لائف اسٹائل کو درپیش خطرات ، جو ان بوسیدہ تن اور پھٹے ہوئے جوتے پہننے والے مجاہدین سے لاحق تھے، کا ہر سو غل مچا چکا تھا۔ بامیان میں طالبان کی طرف سے پتھر کے دو مجسموں کو نقصان پہنچانا اتنا بڑا جرم تھا کہ دنیا بھر کی این جی اوز اور میڈیا گروپ چیخ اٹھے۔داڑھی نہ رکھنے اور پردہ نہ کرنے پہ طالبان کی طرف سے اپنے ہی شہریوں کو دی گئی سزائیں حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزی بن گئیں جن پہ دنیا بھر کے چینلوں کا رونا پیٹنا عین حب انسانی کی دلیل تھا ۔ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت ایسی فضا بنا دی گئی جس میں دہشت گرد کا حلیہ طے شدہ تھا۔ لمبی داڑھی،پھولی شلوار،سر پہ بھاری پگڑی ، پیر میں پشاوری چپل اور سینے پہ خود کش جیکٹ۔ایسے کارٹون بنائے گئے جن میں دہشت گرد کسی بھی مقام پہ پھٹنے اور حوروں سے ملاقات کا مشتاق نظر آیا۔ اتنا مضحکہ اڑایا گیا کہ اسلام اور جہاد دشنام کے مترادف ہوگئے۔ افغانستان پہ چڑھائی سے قبل کسی نے سوال نہ کیا کہ نائن الیون کے ملزمان کی لمبی لسٹ میں ایک بھی افغانی نہ تھا وہ سب کے سب تو عرب تھے پھر نشانہ طالبان کی حکومت کیوں بنی؟میڈیا کے اس شور و غوغا میں منطق ، دلیل اور باہمی مکالمے کی دھجیاں اڑا دی گئیں جس میں دوسری طرف کا مدعا بھی سنا جا سکے۔ ساری دنیا کو اسی میڈیا کے طفیل ایک نیا بیانیہ پکڑایا گیا ۔جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا اور ایک ایسی لکیر کھینچ دی گئی جس کے ایک طرف ساری دنیا تھی اور دوسری طرف وہ جنہیں ساری دنیا کا دشمن قرار دے دیا گیا تھا۔ اگر وہ امن کے دشمن تھے تو سارے مشرق وسطی میں آگ کس نے لگائی تھی۔ عراق اور لیبیا کو کھنڈر کس نے بنایا ۔ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ کس نے بجائی۔شا م میں فوجیں کس نے اتاریں ،افریقہ کے وسائل پہ کس نے قبضہ کیاالجزائر اور روسی ریاستوں میں مسلمانوں کا جینا کس نے حرام کیا اور لاکھوں مسلمانوں کا خون کس نے بہایا؟یہ تمام سوالات نصاب سے خارج ہی نہیں ممنوع بھی تھے۔ اس ساری میڈیائی مہم میں وہ بھی شامل ہوگئے جو کبھی اسی مہم کے سرخیل امریکہ اور مغرب کے نظریاتی دشمن تھے یعنی مارکس کے پیروکار جو دنیا بھر کے مظلوموں کو اکٹھا ہونے کا درس دیتا تھالیکن مجاہدین جو دنیا بھر سے امریکی سامراج کا مقابلہ کرنے افغانستان میں اکٹھے ہوئے، دہشت گرد کہلائے۔کل کے سرخے سوویت یونین کے انہدام کے بعد قبلہ بدل کر واشنگٹن کی سمت سجدہ ریز ہوگئے ۔کہاں کا نظریہ کدھر کے آدرش۔مشترکہ دشمن مسلمان تھا اور مشترکہ ہدف جہاد۔ اسی کے خلاف عالمی سامراج نے ایک بیانیہ تشکیل دیا تھا جسے میڈیا زور و شور سے پھیلا رہا تھا۔ یہی وہ میڈیا ہے جس کے خلاف آج صدر ٹرمپ روز ٹویٹرکا بھالا تیز کئے میدان میں آجاتے ہیں اور یہی وہ صدر ٹرمپ ہیں جن کے خلاف اسی میڈیا نے انتخابی مہم کے دوران فضا بنائے رکھی۔اس کے باوجود اگر وہ تمام میڈیائی تجزیوں،رپورٹوں اور مہم جوئی کے برخلاف وائٹ ہاوس میں دنیا کے سب سے طاقتور منصب پہ براجمان ہیں اور دن رات میڈیا کے لتے لیتے ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا بدل رہی ہے۔مشرقی جرمنی میں اشتراکی دیوار برلن اٹھا کر خاندانوں کی تقسیم کرنے والے کب تک میکسیکو کی دیوار پہ شور مچائیں گے یہ ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا جن کا ملک سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے میڈیائی مہمات کا بلاشرکت غیرے سرخیل رہا ہے۔ ایسے میں شام اور افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا پہ چاہے میڈیا کتنا ہی شور مچائے، وہ ایسا کرکے رہیں گے اور اس کی بنیاد ان کا ایک ہی نظریہ ہوگی۔ سب سے پہلے امریکہ! (جاری ہے)