عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جرمنی کے سفیر محترم نے جس رویے کا مظاہرہ کیا ، یہ کسی سفیر کے شایان شان نہیں۔ سفیر ایسے تنک مزاج نہیں ہوتے ۔ یہ ان کی تربیت کا حصہ ہوتا ہے کہ سفارت کاری کے دوران کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا ہو جائے تو اس سے کیسے نبٹنا ہے ۔ سفیر محترم نے یہ سارے تقاضے پامال کرتے ہوئے جو لہجہ اختیار کیا وہ ان کے منصب سے فروتر تھا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سفیر ایک ملک میں اپنی ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے ، وہ نہ وائسرائے ہوتا ہے نہ تھانے دار۔اس کا اسلوب گفتگو سفارت کاری کے معیارات سے نیچے نہیں گرنا چاہیے ۔تقریب کے بعض شرکاء نے فلسطین کے حوالے سے احتجاج کیا تو سفیر محترم ہتھے سے ہی اکھڑ گئے۔ ایک طالب علم کے طور پر میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس نان پروفیشنل رویے کی وجوہات کیا ہو سکتی ہے۔ چند سوالات میری ہتھیلی پر رکھے ہیں ، میں یہ آپ سب کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں ، شاید آپ میری رہنمائی فرما سکیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اس تقریب میں سفیر محترم کی حیثیت مہمان کی تھی یا میزبان کی۔ یاد رہے کہ اس سوال میں ایک جہان معنی پوشیدہ ہے۔ جس رویے کا انہوں نے مظاہرہ کیا ، وہ مہمان کم اور میزبان زیادہ لگ رہے تھے۔ مہمان کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ شرکاء کو آتشیں لہجے میں تقریب کے ایس او پی بتاتا پھرے۔یہ کام کسی درجے میں کرنا بھی ہو تو میزبان کرتا ہے۔ تو سفیر محترم اس قدر جلال میں کیوں آ گئے۔ وہ مہمان تھے یا میزبان؟ کہیں ایسا تو نہیںکہ حقوق انسانی اور عاصمہ جہانگیر کے عنوان سے سجی اس محفل کا’ مالیاتی سرچشمہ ـ‘ جرمنی ہو اور اس نسبت میزبانی سے سفیر صاحب جلال میں آ گئے ہوں؟ اس سوال کا جواب اگر اثبات میں ہے تو پھر ظاہر ہے کہ اس سے مزید بہت سارے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ حقوق انسانی اور سول سوسائٹی کے عنوانات سے یہاں جو کچھ جلوہ پزیر ہوتا ہے اس کے پیچھے مالی معاونت کس کی ہوتی ہے اور یہ معاونت ’ فی سبیل اللہ‘ ہوتی ہے یا اومنی بس کے روٹ کی طرح کوئی ایجنڈا بھی اس کے ہمراہ ہوتاہے۔جس تہذیب میں ’ فری لنچ‘ کا کوئی تصور نہ ہو وہاں ’ فری سپانسر شپ‘ کیسے ہو سکتی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس رد عمل کا تعلق ممکنہ مالیاتی میزبانی سے تھا یا اس کا تعلق اس عقیدے سے تھا جس میں مغرب کے نیشن سٹیٹ کا تصور عملًا غیر موثر ہو جاتا ہے اور کوئی شہری کسی بھی ملک کا ہو، بات جب اسرائیل کی ہوتی ہے تو وہ بے اختیار ہو کر میدان میں کود پڑتا ہے اور اسے اس بات کا کوئی خوف نہیں ہوتا کہ اس رویے کو انتہا پسندی یا مذہبی شدت پسندی کا نام نہ دیا جائے؟ بظاہر یہ بات عجیب سی لگتی ہے لیکن اسرائیل کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے ۔ یہودی کانگریس کے پہلے اعلامیے سے لے کر اعلان بالفور تک اور اعلان بالفور سے لے کر لیگ آف نیشنز کی دستاویزات تک ، اسرائیل کو یہودیوں کا نیشنل ہوم قرار دیا گیا ہے ،سٹیٹ نہیں۔ سٹیٹ کی جگہ ہوم کی یہ اصطلاح معنی خیز ہے۔ یعنی کسی کی ریاست بھلے کوئی بھی، امریکہ ہو ، برطانیہ ہو ، جرمنی ہو ، فرانس ہو ، اگر عقیدہ سانجھا ہے تو اسرائیل اس کا گھر ہے۔ وہ جب چاہے اپنے گھر آ جائے اسے شہری سمجھا جائے گا۔ تو کہیں ایسا نہ تو نہیں کہ سفیر محترم ، سفارت کاری تو جرمنی کی کر رہے ہوں فلسطین کے حق میں آواز بلند ہوتی دیکھ کر اسرائیل کے ساتھ اس ’ عقیدے کی سانجھ ‘ کا درد ایسا جاگا ہو کہ سفیر محترم آپ میں نہ رہے ہوں اور آتش فشاں بن گئے ہوں؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ ان سفیروں کو کس نے یہ باور کرا رکھا ہے کہ وہ پاکستان میں سفیر کم اور وائسرائے زیادہ ہیں؟ یہ صرف ہماری معاشی مجبوریاں نہیں ہیں بلکہ یہ وہ نو آ بادیاتی افسر شاہی ہے جس کی ہڈیوں کے گودے سے غلامی نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ آپ اسلام آباد میں کسی بھی تقریب کا احوال دیکھ لیجیے ، سفیروں کا احترام اپنی جگہ لیکن جہاں مغربی دنیا کا کوئی سفیر آیا ہو وہاں ہماری افسر شاہی کا فدویانہ پن کراہت کی حد تک تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ نو آبادیاتی دور تو کب کا ختم ہو چکا لیکن امور ریاست اسی افسر شاہی کے ہاتھ میں ہیں جو نو آبادیاتی روایات کو دنیا کی آفاقی سچائی سمجھ کر گلے لگائے ہوئے ہے۔ عالم یہ ہے کہ ملک کا چیف جسٹس فرماتا ہے کہ جرمنی دنیا کا مہذب ترین ملک ہے۔ معلوم نہیں یہ کون سا پیمانہ ہے جس پر جرمنی کو پرکھا گیا اور وہ دنیا کا مہذب ترین ملک نکلا؟ افسر شاہی ہی سے کیا گلہ ، یہاں تو عالم یہ ہے کہ صدر پاکستان ، پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب فرماتے ہیں تو اردو بولنا گوارا نہیں ہوتا ، صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ مغربی سفیروں کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا جا رہا ہے اور اس خوئے غلامی کے نام یہ تہمت دھری جا رہی ہے کہ یہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب ہے۔جہاں فدویانہ وارفتگی کا عالم یہ ہو وہاں کوئی سفیر خود کو نو آبادیاتی زمانوں کا وائسرائے سمجھنا شروع کر دے تو اس کا کیا قصور؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ پاکستان کا ایک شہری ، پاکستان میں ہونے والی ایک تقریب میں ، پاکستان کے قانونی دائرے کے اندر رہتے ہوئے کوئی حرف احتجاج بلند کرتا ہے تو کسی سفیر کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ آگ بگولا ہو جائے؟ اس رویے پر رد عمل کیا صرف سماجی سطح پر ہونا چاہیے یا کسی اعلی سطح سے بھی جناب سفیر محترم سے یہ درخواست کی جانی چاہیے تھی کہ آپ کا احترام سر آنکھوں پر لیکن ازرہ کرم آپ بھی اس دائرے میں رہنا سیکھیے جسے سفارت کاری سے نسبت ہوتی ہے۔ہیڈ ماسٹر ، ایس ایچ او یا وائسرائے نہ بنیے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ مغرب کا وائٹ مینزبرڈن کا سفید فام برتری کا تصور ختم ہونے میں نہیں آ رہا ۔ یہ آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ دنیا میں صرف سفید فام اقوام مہذب ہیں۔اور اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ باقی کی دنیا کو تہذیب سکھائیں۔ یہ تصور مختلف شکلوں میں دنیا بھر میں رائج رہا اور نو آبادیاتی ادوار کی تمام سفاک وحشتوں کا جوازز بنا رہا۔ اب بھی اس کی صرف شکل بدلی ہے، جوہری واردات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ سفیر محترم ہمارے لیے معزز اور محترم ہیں لیکن وہ سفیر محترم ہیں۔ وہ وائسرائے نہیں ہیں۔ پاکستان کے شہریوں کو جو آزادی پاکستان کے آئین نے دے رکھی ہے کسی سفیر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان آزادیوں پر تلملاہٹ کا شکار ہو۔ مزاج کی نازکی اگر اتنی ہی زیادہ ہے تو ایسی تقاریب میں شرکت سے اجتناب فرمایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر شریک ہونا ہے اور حقوق انسانی پر خطبات دینے ہیں تو فلسطین میں حقوق انسانی کی پامالی پر اٹھتے سوالات بھی برداشت کرنا ہوں گے۔