عارف نظامی مرحوم کی وفات کی صدمہ انگیز خبر برقی جھٹکے کی طرح تھی۔ مرحوم کچھ دنوں سے علیل اور ہسپتال میں زیر علاج تھے لیکن علالت کی خبر چونکہ میڈیا پر نہیں آئی اس لئے وفات کی خبر اچانک آئی تو یقین نہیں آیا اور یقین جب آیا تو صدمے کی لہر نے دیر تک لپیٹ میں لئے رکھا۔ عارف صاحب بہت بڑے صحافی اور صاحب طرز مدیر تھے۔دی نیشن کے ایڈیٹر کے طور پر کئی بار اداریہ وہ خود لکھا کرتے اور ان کی تحریر سے آشنا قارئین کو پتہ چل جاتا۔صاحب طرز مدیر ہونے کی بات اس لئے بھی درست ہے کہ انہوں نے انگریزی صحافت میں متانت اور جرات کے امتزاج کے ساتھ نیشن کو اس کا مقام دلوایا۔بطور ایڈیٹر وہ مضامین بھی لکھتے لیکن آخر دم تک یعنی جب تک انہیں ادارہ نوائے وقت سے الگ نہیں کر دیا گیا‘رپورٹنگ بھی کرتے رہے۔یہ ذرا انوکھی بات ہے لیکن نیشن اور نوائے وقت میں ان کی خبریں کم و بیش روزانہ ہی چھپتیں۔اکثر بنا نام کے اور کبھی کبھار نام کے ساتھ بھی۔بے نظیر حکومت کی رخصتی (پہلی والی) کی خبر بریک کرنے والا واحد ادارہ نوائے وقت تھا۔خبر عارف نظامی کے نام کے ساتھ صبح چھپی اور اسی شام حکومت ختم کر دی گئی۔مرحوم ایک سماجی شخصیت تھے اور پارٹیوں میں انکی نظریں خبریں تلاش کرتی رہتیں۔ ان کی وفات قومی سانحہ سے کم نہیں۔محض اس لئے نہیں کہ وہ بہت بڑے صحافی اور مدیر نیز ٹی وی کے تجزیہ نگار تھے بلکہ زیادہ اس لئے کہ آج کے دور میں‘یعنی جب چار سے میڈیا’’کنٹرولڈ ہے‘‘ اور صحافت قصیدہ نگاری کا دوسرا نام بن گئی ہے اور بڑے بڑے نام والے کالم نگار اور ٹی وی تجزیہ نگار حالات پر تبصرے‘معاملات کی خرابی پر جرح کے بجائے حکمرانوں کی خوبیاں بیان کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ظاہر ہے‘ خوبیاں اتنی زیادہ ہیں کہ تین سال ہو گئے‘ ختم ہونے میں ہی نہیں آتیں۔ایسے دور میں عارف نظامی مرحوم متانت اور دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے توجہ دلائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے، جو ایک صحافی کا اصل فرض ہے۔اگرچہ وہ تنقید کرتے ہوئے شائستگی اور احتیاط کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔گردش زمانہ ہے کہ اب ایسے صحافیوں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ بہت سے لوگ انہیں لبرل دانشور کے طور پر جانتے ہیں۔بدقسمتی سے لبرل کا ترجمہ ہمارے مہربانوں نے ’’دین بیزار‘‘ کر رکھا ہے جبکہ ہمیشہ ایسا نہیں ہے۔عارف نظامی حریت فکر‘آزادی صحافت کے مجاہد اور علمبردار تھے اور صحیح العقیدہ مسلمان بھی۔اختلاف رائے کرنے والوں کو مردود قرار دینے کے حامی نہیں تھے‘ اسی لئے زاہدانِ تنگ نظر انہیں اپنے خود ساختہ معنوں میں لبرل قرار دیتے رہے۔ نوائے وقت میں جزوی طور پر ادارتی ذمہ داریاں بھی ادا کرتے رہے اور روزمرہ پالیسی کے حوالے سے وہ ہر روز نوائے وقت کے ذمہ داروں کو بھی بلاتے۔ان کی گفتگو سن کر یہ واضح ہو جاتا تھا کہ نظریہ پاکستان سے ان کی وابستگی گہری تھی لیکن وہ نظریہ پاکستان کی اس تشریح سے متفق نہیں تھے جو آج کل غیر اعلانیہ طور پر ریاست کا دستور ہے۔ خدا مرحوم کی مغفرت کرے۔نوائے وقت کی تاریخ کا وہ لازمی جزو تھے اور رہیں گے اور اپنے دور میں آزادی صحافت کے لئے ان کا کردار بھی تاریخ میں سرفہرست رہے گا وہ ’’دی نیشن‘‘ کے ’’نیم مالک‘‘ بھی تھے لیکن کارکن دوست ۔یہ ان کا انسانی پہلو تھا۔بعدازاں انہوں نے اپنا انگریزی اخبار پاکستان ٹوڈے نکالا اور نیشن کی روایات کو آگے بڑھایا۔ ٭٭٭٭٭ اس عید قرباں پر سوشل میڈیا کی بدولت جانوروں کو ذبح کرنے کے طریقے دیکھ کر یہی خیال آیا کہ مسلمان ایک کے بعد ایک کرکے رسم ہائے مسلمانی بھولتے جا رہے ہیں۔شرعی حکم ہے‘ جانور کو اذیت مت دو‘ اسے چھرا بھی مت دکھائو اور دوسرے جانور کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو۔لیکن درجنوں ویڈیوز دیکھیں کہ ایک ہی جگہ جانوروں کا ہجوم ہے اور ایک ایک کر کے انھیں ذبحہ کیا جا رہا ہے۔ جی ہاں‘اسے قربان کرنا تو کہا ہی نہیں جا سکتا۔بہت سے اونٹوں کو عرب اس طرح قتل کر رہے تھے جیسے سربیا والے بوسنی مسلمانوں کو مار رہے ہوں۔شاید افغانستان میں ایک جگہ گولیاں مارنے کے بعد گرے ہوئے جانور کو ذبح کر رہے تھے۔یہ اجتہاد خدا جانے کہاں سے آیا۔جگہ کا نام ویڈیو میں نہیں ہے۔لیکن اندازہ ہے کہ افغانستان نہیں تو پختونخواہ میں کسی جگہ۔ لوگ قربانی پر جانوروں کی طرح گوشت کھانے کی اپنی ویڈیوز شیئر بھی کر رہے ہیں۔لگتا ہے‘ عید قربان کو شکم پروری کا تہوار بنا لیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ لاہور کے بارے میں رپورٹ ہے کہ اس بار قربانی کرنے کی شرح میں 20فیصد کمی آئی۔یعنی 20فیصد لوگوں نے اس بار قربانی کی ہی نہیں۔ یہ لاہور کی بات ہے جہاں لوئر مڈل کلاس بہت مضبوط ہے۔کراچی اور پنڈی کی طرح لاہور سے قریب تر علاقوں میں تو یہ شرح اور بھی زیادہ ہو گی اور بہت سے علاقے تو انتہائی قریب ہیں۔ اوسط 30فیصد لگا لیجیے۔گویا تین برسوںمیں انتہائی غربت 30فیصد تک بڑھ گئی یعنی مزید 30فیصد آبادی کو ان کی کم از کم قوت خرید سے محروم کر دیا گیا۔30فیصد تک بڑھ گئی۔بہرحال عمران خاں کا اعلان ہے کہ عنقریب غربت کم ہو جائے گی۔ چلیے‘ دیکھتے ہیں یہ عنقریب کب قریب آتی ہے‘فی الحال تو افق بنجر پڑا ہے۔