اِسرائیل اور حماس کے مابین گزشتہ ہفتے سات اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ میں میڈیا کی اِطلاعات کے مطابق تقریباً تین ہزار فلسطینی جاں بحق اور نو ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری طرف تیرہ سو اِسرائیلی مارے گئے ہیں۔ جبکہ اِسرائیل کی فوج نے غزہ کا مکمل محاصرہ کیا ہوا ہے جس سے پانی سمیت کھانے پینے کی اشیاء اور ضروریات زندگی کی بنیادی چیزیں خطرناک حد تک کم ہوگئی ہیں۔ اِسرائیل کی اِس تازہ جارحیت کی وجہ سے 23 لاکھ کی آبادی پر مشتمل غزہ کی پٹی تقریباً کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہے۔ حتیٰ کہ اِسرائیل نے ان فلسطینی شہریوں کے قافلے پر بھی بمباری کردی ہے جو غزہ کے واحد زمینی رابطے رفاہ چیک پوسٹ کی طرف جارہے تھے۔ یاد رہے کہ رفاہ چیک پوسٹ غزہ اور مصر کے سینائی علاقے کو ملانے والی اکلوتی کراسنگ ہے۔ اسرائیل اور حماس کے مابین شروع ہونے والی حالیہ لڑائی میں پہل اگرچہ حماس نے کی ہے مگر نہتے فلسطینیوں پر آئے روز اِسرائیل کی طرف سے ہونے والے مظالم اور فلسطینی مہاجرکیمپوں پر ہونے والے حملوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو حماس کی کاروائی ان اسرئیلی کاروائیوں کا ردِ عمل معلوم ہوتی ہے جس کی ایک مثال اِس سال جولائی میں مغربی کنارے کے شہر جنین میں قائم فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپ پر کیا گیا حملے ہے جس کے نتیجے میں 12 فلسطینی ہلاک اور 140 سے زائد زخمی ہوئے ۔ جبکہ سات جولائی کو نابلوس میں کارروائی کرتے ہوئے اِسرائیلی فوج نے تین فلسطینیوں کو شہید کیا۔ جنین میں قائم پناہ گزینون کے کیمپ پر ہونے والا یہ اِسرائیلی حملہ، 20 سال سے زائد عرصے میں مغربی کنارے میں ہونے والا سب سے بڑا اسرائیلی حملہ تھا۔ جس نے ہزاروں افراد کو کیمپ سے بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔ میڈیا کی اِطلاعات کے مطابق اِسرائیلی حملے کے بعد مہاجرین کا کیمپ ملبے اور کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا۔ جنین کے پناہ گزین کیمپ میں ہزاروں فلسطینی، 1948 کے نکبہ اور اِسرائیل کے قیام کے بعد بے دخل کیے گئے 750,000 سے زیادہ فلسطینی مسلمانوں کی اولادیں ہیں جو تنگ گلیوں اور ملحقہ چھتوں والی چھوٹی رہائشی عمارتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے ہیں اور فلسطینیوں کے لیے جنین پناہ گزین کیمپ ہمیشہ سے ’’مزاحمت کی علامت‘‘ رہا ہے۔نیتن یاہو کی قیادت میں موجودہ حکومت – ملک کی تاریخ میں زیادہ دائیں بازو کی سب سے زیادہ نمائندگی پر مشتمل حکومت ہے جس میں الٹرا نیشنلسٹ اور الٹرا آرتھوڈوکس یہودی جماعتیں شامل ہیں۔ اِسرائیل کی موجودہ سخت گیر حکومت شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں 2005 میں خالی ہونے والی غیر قانونی بستیوں کو دوبارہ آباد کرنا چاہتی ہے جس کے لیے اِس نے مارچ 2023 میں اِسرائیلی پارلیمنٹ سے قانون سازی بھی کی ہے۔ پچھلے ایک سال سے اسرائیل نے مغربی کنارے میں تقریباً روزانہ فوجی چھاپے مارے ہیں اور 2022 کے آخر میں اِسرائیل کے موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے عہدہ سنبھالتے ہی اِس رجحان میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ اِسی طرح وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے جمعہ 22 ستمبر 2023 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے 'دی نیو مڈل ایسٹ' کا نقشہ پیش کیا جس میں فلسطین کے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے وجود کی نفی کرتے ہوئے اِسرائیل اور عرب ممالک کے مابین تیزی سے نارمل ہوتے ہوئے تعلقات کو اجاگر کیا گیا جس سے اِسرائیل کے دیرینہ خواب (جس میں فلسطین کے علیحدہ وجود کی نفی شامل ہے) گریٹر اِسرائیل کے قیام کی طرف اِسرائیل کے بڑھتی ہوئی پیشقدمی کا تاثر ملا جو کہ فلسطین کے مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ فلسطینیوں کے بقول ’’فلسطین میں دو مقامات ایسے ہیں جنہیں اسرائیل کبھی بھی مکمل طور پر فتح نہیں کر سکا’’ جنین اور غزہ‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل جنین اور غزہ کے لوگوں کو بار بار دبانے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ باوجود اس کے کہ 2002 کے انتفادہ کے وقت اسرائیل کے حملے کے دوران جنین کے کیمپ کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا تھا۔اِسرائیل کے تازہ ترین حملے کے پس منظر میں اہم بات یہ بھی ہے کہ نیتن یاہو کی موجودہ حکومت غزہ سے فلسطینی مسلمانوں کو بے دخل کرکے غزہ پر اپنا مکمل کنٹرول قائم کرنا چاہتی ہے جبکہ مغربی کنارے کا علاقے پہلے ہی چاروں اطراف سے اِسرائیل کے نرغے میں ہے اور جگہ جگہ چیک پوائنٹ قائم ہیں جن سے فلسطینی مسلمانوں کی روزمرہ کی آمدورفت کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ فلسطین اور اِسرائیل کے مابین اختلافی اِیشوز میں مشرقی یروشلم کی حیثیت اور فلسطینی مہاجرین کی واپس اپنے آبائی علاقوں میں آبادکاری مرکزی نوعیت کے حامل ہیں۔ فلسطینی مہاجرین جو 1948 سے لڑی جانیوالی مختلف جنگوں کے نتیجے میں اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں اِسرائیل اِن فلسطینی مسلمان مہاجرین کو اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہونے کی اِجازت نہیں دیتا کیونکہ فلسطینی مہاجرین کی اِن علاقوں میں آباد ہونے سے فلسطین کے مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں خاطرخواہ اِضافے کا اِمکان ہے جو اِسرائیل کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ "النکبہ یا فلسطینیوں کا اپنے علاقوں سے بیدخل ہونے کا ہولناک تجربہ" کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے جب فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے 14 مئی 1948 کو، جیسے ہی برطانوی مینڈیٹ کی میعاد ختم ہوئی، صہیونی افواج نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کم از کم 750,000 فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کیا اور تاریخی فلسطین کے 78 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔ بقیہ 22 فیصد کو ان حصوں میں تقسیم کیا گیا جو اب مقبوضہ مغربی کنارے اور محصور غزہ کی پٹی ہیں۔ اب یہ مسلم دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اِتحاد قائم رکھتے ہوئے اِسرائیل کے اِس منصوبے کو ناکام بنائیں اور ایک آزاد اور خود مختار فلسطین کی ریاست کے قیام کو یقینی بنائیں۔