پاکستان میں آجکل کچھ لوگوں کو امریکہ کی یاد ستا رہی ہے۔پھر اسکی گود میں بیٹھنا چاہتے ہیں۔ ایک مخصوص حلقہ کے لوگ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے خلاف میڈیا میں مہم چلا رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ چین نے بہت بلند شرح ِسود قرض دیا ہے جو پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ حالانکہ یہ بات مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو ایسے وقت میں متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جب سی پیک کے اہم مرکز گوادر میںایک ماہ سے عوامی احتجاج ہورہا ہے۔ گوادر کے مقامی باشندے بنیادی سہولتیں نہ ملنے پر نالاں ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ان مظاہرین کی شکایات کو سننے کے لیے حکام نے کئی ہفتے لگا دیے اور احتجاج کو جان بوجھ کر بڑھنے دیا۔سی پیک کے خلاف پراپیگنڈہ اور بیک وقت گوادر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کومحض اتفاق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایک مضبوط لابی سرگرم ہے جو ایسی فضابنانا چاہتی ہے کہ حکومت چین سے دُوری اختیار کرسکے اور امریکہ بہادر کے ساتھ دوبارہ پینگیں بڑھائے۔ پاکستان میں حکمران اشرافیہ میں ایسے لوگ ہیں ،جن کے نزدیک امریکہ کی خوشنودی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔ ایک ہفتہ پہلے امریکی صدر بائیڈن نے ایک جمہوری سمٹ کا انعقاد کیا جس میں پاکستان کو شرکت کے لیے مدعو کیا گیا لیکن وزیراعظم عمران خان نے ا س میں شرکت سے معذرت کرلی۔ایک انٹرویو میں وزیراعظم نے پاکستان میں امریکہ کوڈرون طیارے اڑانے کے لیے فضائی اڈّے دینے کے امکان کے جواب میںکہا ’ہرگز نہیں (ایبسولُوٹلی ناٹ)۔ امریکہ نے باضابطہ اڈّے تو نہیں مانگے لیکن پسِ منظر میں ہونے والی بالواسطہ بات چیت میں ایسے مطالبات سامنے آرہے تھے جن کا جواب دیا گیا۔ پاکستان ایک دو راہے پر کھڑا ہے جہاں امریکہ اور چین میں سے کسی ایک انتخاب کرنا ہماری مجبوری ہے۔ پاکستان معاشی طور پر اتنا مضبوط ملک نہیں کہ بیک وقت امریکہ اور چین کوخوش رکھ سکے۔ بھارت ہم سے چھ گنا بڑا ملک ہے‘ معاشی طور پر مستحکم ہے۔ اس نے امریکہ اور رُوس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔ کیونکہ دونوں سے اربوں ڈالر کا فوجی سامان خریدتا ہے اور تجارت کرتا ہے۔اسی طرح جنوبی کوریا ہے جس کے امریکہ اور چین کے ساتھ بیک وقت اچھے تعلقات ہیں۔ لیکن پاکستان اس پوزیشن میں نہیں کہ غیر جانبدار ‘ نیوٹرل ہوسکے۔ہمیں امریکہ یا چین میں سے کسی ایک کے ساتھ تزویراتی دوستی کرنا پڑے گی۔بظاہر ہم جو بھی کہیں۔کمیونزم کے زمانے میں امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ میں انڈیا غیرجانبداری کا ناٹک کیا کرتا تھا لیکن روس کا اہم اتحادی تھا۔ وجہ یہ ہے کہ ایک تو ہماری معیشت بہت کمزور ہے۔ دوسرے‘ چین بالکل ہمارے سر پر بیٹھا ہے۔ امریکہ کی خاطر ہم اپنے سب سے قریبی ہمسایہ ملک سے تعلقات بگاڑ نہیں سکتے۔ امریکہ کو ایسی رعایات نہیں دے سکتے ،جن سے چین کی سلامتی کوخطرہ لاحق ہو جیسے ڈرون طیارے اڑانے کے اڈّے کیونکہ وہ افغانستان کے ساتھ ساتھ چین اور ایران کی نگرانی کے لیے بھی استعمال ہوں گے۔ بلکہ ان میں نصب الیکٹرانک آلات سے پاکستانی فوج کی نقل و حمل اور ایٹمی اثاثوں کی جاسوسی بھی کی جائے گی۔دو اہم وجوہ کی بنا پر ہمارے اور امریکہ کے بنیادی اغراض و مقاصد ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ نہ ہم انڈیا کی بالادستی قبول کرسکتے ہیں نہ اسلامی تشخص چھوڑ سکتے ہیں۔ امریکہ کی جمہوری سمٹ کا مطلب ہے لبرل ڈیموکریسی کے مذہب کو دنیا بھر میں رائج کرنا جو کئی اعتبار سے اسلام سے متصادم ہے۔ امریکی بلاک میں شامل ہونے کا مطلب ہے کہ ہم اپنا اسلامی تشخص ترک کرکے لبرل جمہوریت اختیار کرلیں۔ امریکہ سے تزویراتی اشتراک کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے دستبردار ہوجائے اور جنوبی ایشیا میںانڈیا کی بالادستی قبول کرکے اس سے دوستی کرلے۔ امریکہ اور چین کی سرد جنگ میں انڈیا واشنگٹن کا قریب ترین اتحادی ہے۔اسکی بحر ہند پالیسی کا اہم ستون ہے۔ واشنگٹن کے لیے دہلی کی اہمیت اسلام آباد سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ امریکہ کے مفادات کی خاطر انڈیا کی طفیلی ریاست بن جائیں؟جنوبی ایشیا سے وسط ایشیا تک دلی کے فاشسٹ ہندو حکمرانوں کے سامراجی عزائم کے آلۂ کار ہوں ؟ چین کے خلاف سرد جنگ میں امریکہ مشرق ِوسطیٰ میں اسرائیل کا غلبہ اور جنوبی‘ وسطی ایشیا میں بھارت کی تھانیداری قائم کرنا چاہتا ہے۔ دونوں باتوں کو ہماری قومی اَنا قبول نہیں کرسکتی۔ دوسری طرف‘ پاکستان کی تمام تر فوجی ضروریات چین پوری کررہا ہے۔ ہمارے جنگی طیارے چین سے آرہے ہیںیا اسکی مدد سے بنائے جارہے ہیں۔ پاکستان کے دفاع کے لیے واشنگٹن قابل ِاعتماد ساتھی نہیں۔ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو اپنے اسلحہ کے پرزے تک دینے سے نکار کردیاتھا۔ انیس سو نوے کی دہائی میںاسلام آباد سے پیشگی رقم لینے کے باوجود ایف سولہ طیارے بیچنے سے انکار کردیا تھا۔ دو سال پہلے بالاکوٹ پر انڈیا نے جو حملہ کیا وہ امریکہ کی خاموش تائید اور اسکے اتحادی اسرائیل کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس کے برعکس چین انڈیا کے مقابلہ میں پاکستان کی فوجی صلاحیت کو مضبوط تر بنا رہا ہے۔بالاکوٹ حملہ کے بعد چین نے پاکستان کو جنگی طیاروں پر نصب کرنے کے لیے جدید ترین میزائل اور ائیر ڈیفنس نظام فراہم کیے ہیں۔چین کی دوستی میں یہ مسئلہ درپیش نہیں کہ ہم اپنا اسلامی تشخص ترک کرکے کوئی اور نظام اختیار کریں۔ قرآن و سنت کی بجائے تاؤ اور کنفیوشس کی تعلیمات پر عمل شروع کردیں۔ وہ ہمارے اندرونی ثقافتی اور سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ اس نے تیس ارب ڈالر سے زیادہ صرف کرکے ہمارے ملک کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا ہے اور یہ قرضے اور سرمایہ کاری آسان شرائط پر ہیں۔مشکل پڑی تو باہمی رضا مندی سے یہ قرضے ری شیڈول بھی کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کے معاشی ‘مالی مسائل وقتی نوعیت کے ہیں۔ اگر ہم صبرسے یہ مشکل وقت نکال گئے اور صنعتی ترقی پر توجہ دیتے رہے تو دس پندرہ برس بعدمعاشی طور پر مضبوط ہوجائیں گے۔ اگر ہم گریٹر انڈیا کا حصہ نہیں بننا چاہتے تو ہمارا مستقبل چین اور رُوس کے ساتھ طویل مدتی اتحاد و اشتراک سے وابستہ ہے ۔