برادرِ مکرم شیخ محمد سعید نے، گزشتہ روز فون کر کے مطلع اور قدرے متنبہ کیا کہ سیّد الشہد حضرت امیر حمزہؓ کے سالانہ یوم کے حوالے سے اہتمام، شایانِ شان نہ تھا اور پھر آپ از خود بھی اس میں موجود نہ تھے، مجھے اپنی محرومی اور غیر حاضری کا احساس تو تھا ہی، لیکن شیخ صاحب کے ’’پوائنٹ آف آرڈر‘‘پر اس کی گہرائی میں اضافہ ہوگیا، خیال یہی تو تھا کہ جمعتہ المبار ک کی نشریات و خطبات ، از حد مقدس و معطر عنوان سے عطر بیز ہوں گی، مگر مختلف اعلیٰ ترین اداروں میں منعقدہ میٹنگز کا شیڈول، 11 بجے سے لے کر 5 بجے تک، اتنا بھرپور تھا کہ بس ایک بجے والے جمعتہ المبارک کے خطبے اور نماز سے ہی استفادہ ممکن ہوا---اور پھر ’’ وقف اور اوقاف‘‘ جیسے اہم موضوع پر گورنر ہاؤس میں حاضر ہوگئے، جہاں ایک سود مند اور فکر انگیز نشست میں اِس کے مختلف علائق و عواقب پر بھرپور گفت و شنید اور بحث و تمحیص ہوئی۔ بہرحال میرے قلب و نظر میں مدینہ منورہ حاضری کی وہ ساعتیں ہمیشہ تازہ و تابندہ رہتی ہیں، جہاں رات کے کسی پہر ’’ سیّدنا امیرحمزہؓ ‘‘کی بارگاہ سے شرفیاب کا اہتمام و انصرام ہوتارہا، ہمارے معتمرین میں سے صاحبانِ محبت کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو رمضان شریف کے ایام کی برکتیں سمیٹنے کے بعد، 15 شوال تک مدینۃالرسول میں محض سیّدنا امیر حمزہؓ کے یوم شہادت تک قیام کر کے، وہاں اس روز خصوصی حاضری کی سعادتیں پاتاہے۔ حضرت سیّدنا امیر حمزہؓ اسلام کے اوّلین سپہ سالار، رسول اللہﷺ کے محافظ، آپﷺکے مہربان چچا، خالہ زاد اور آپﷺکے رضاعی بھائی۔ نہایت حسین و جمیل، شجاعت و بہادری کا پیکر، عزم و استقلال کا مجسمہ، شمشیر زنی اور تیر اندازی میں کایاں، پہلوانی اور شہسواری میں نمایاں، فصاحت و بلاغت اور شعر و سخن کے ماہر تھے۔بنوز ہرہ کی دو بلند بخت دوشیزگان اور چچازاد بہنیں حضرت ہالہ رضی اللہ عنہا اور حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا بیا ہ کر بنو ہاشم میں جلوہ آ راء ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دو عظیم المرتبت خواتین کو دو جلیل القدر ہستیوں کی ماں ہونے سے سرفراز کیا۔ ان میں ایک تو تاجدارِ ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی کریم ﷺاور دوسرے حضرت امیر حمزہ سیّد الشہدا تھے۔ بنوزہرہ اور بنو ہاشم کا باہمی رشتہ مودت و محبت حضرت نبی اکرمﷺکے والدین کریمین حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب اور سیدہ آمنہ بنت وھب سلام اللہ علیہا کے واسطے سے ملانا مقدر فرما دیا گیا تھا، اور اس نسبت اور ملاپ سے اس عہد کے سکالر، علماء ، اہل کتاب، احبار یہود اور اوررہبانِ نصاریٰ آگاہ تھے اور ان علامات و نشانات کا بھی علم رکھتے تھے جن کا بنی منتظر کے والدین کریمین اور ان کے قبائل میں پایا جانا اور ان کے ذریعے ان کو پہچان لینا ممکن تھا۔ یمن کے یہودی عالم جو کہ تورات کاماہر تھا، نے ایک موقع پر حضرت عبد المطلب کو دیکھا تو ان کے چہرے کی ضیاء اور پْرنور شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ موسم سرما کا تجارتی سفر تھا جو بالعموم یمن کی طرف ہوتا، اثنائے سفر میں ایک یہودی عالم جس کے سامنے تورات کے اوراق آراستہ تھے، میں محوِ تھا۔ معاً اس کی نگاہیں اْٹھیں اور اس نے عبد المطلب کے چہرہ کی زیارت کی، بالعموم پہلا سوال یہی ہونا تھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں اور کون ہیں ؟جب اْسے پتہ چلا کہ اس دلاویز شخصیت کا مالک بنو ہاشم کا سردار، مکہ کا پیشوا اور کعبہ کا متولی ہے، تو آپ کے چہرے کے خدو خال اور بالخصوص آپ کے ناک کے نقوش دیکھنے میں محو ہوگیا۔ طویل غورو خوض اور استعجاب و استفراق کے بعد کہنے لگا تیرا چہرہ نبوت و بادشاہت کے آثار و نشانات سے آراستہ ہے، علماء یہود کا ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ یہ نبوت و بادشاہت شاید بنو زہرہ میں ہو، اورایک خیال یہ کہ بنوزہر ہ اور بنو ہاشم کا باہم اتصال اس نبوت و بادشاہت کے ظہور کا باعث ہوسکتا ہے، بہر حال اگر ممکن ہو تو بنو زہرہ سے مصاہرت و منانکحت کو لازم پکڑنا۔ حضرت عبد المطلب نے اپنے فرزند ارجمند حضرت عبد اللہ کی شادی بنوزہرہ کی پاکباز خاتون حضرت آمنہ ؓسے کیوں اور کیسے کی؟ یہ اہم اور دلچسپ واقعہ یوں ھے کہ، سودہ بنت زہرہ حضرت آمنہ ؓ کے والد گرامی حضرت وہب بن عبد مناف کی پھوپھی تھیں اور پیدائش طور پر کاہنہ تھیں، وہ جب پیداہوئیں تو ان کا رنگ کالا اور آنکھیں نیلی تھیں، عرب ایسی بے حد سیاہ کالی بچیوں سے ڈرتے تھے اور انہیں زندہ دفنانے سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے، عمر و بن نفیل ایک خدا ترس آدمی تھا، اس قسم کی بچیوں کو وہ گود لے لیتا تھا، زہر ہ بن عبد مناف کی اس نومولود بچی کو بھی اس نے گود لے لیا، اس بچی کا نام سودہ رکھا گیا، یہی بچی آنے والے وقت میں قریش مکہ کی مشہور و معتبر کاہنہ سودہ بنت زہرہ کہلائی، اس کی کہانت و قیافہ شناسی ہمیشہ درست ہوتی تھی، مکہ والے اس کی زبان سے نکلی ہوئی بات کو بڑا وزن دیتے تھے، ایک روزوہ اپنے قبیلے بنو زہرہ کی خواتین سے کہنے لگی: ادھر آؤ! میں دیکھوں تو تم میں کوئی نذیرہ یعنی خدا کے خوف سے ڈرانے والی ہے؟یا کوئی کسی نذیر کو جنم دینے والی ہے؟چنانچہ بنو زہرہ کی سب خواتین ان کے سامنے آگئیں، سیدہ آمنہ سلام اللہ علیہا کو دیکھ کر کہنے لگی:تو یہ ہے جو ایک نذیر کو جنم دینے والی ہے!یہ جو نذیر ہوگا اس کی بڑی شان اور روشن برہان یعنی وہ واضح اور مانی ہوئی دلیل والا ہوگا!حضرت عبد اللہ کے لیے حضرت عبد المطلب ؓ نے سیدہ آمنہ ؓکا رشتہ بھی شاید اسی لیے مانگا تھا۔ کاہن (Soothsayer) اور عرّاف(Diviner) قدیم عرب میں ایک غیب دان طبقے کی حیثیت سے دکھائی دیتے ہیں۔ کہانت اور عرافت میں بسا اوقات یہ فرق سمجھا جاتا ہے کہ کاہن مستقبل کا حال بتاتا تھا اور عراف ماضی کا اور بعض آراء کے مطابق اس کے برعکس۔ جرجی زیدان کا قیاس ہے کہ یہ دونوں علم عربوں کو کلدانیوں سے ملے۔ کاہن نہ صرف غیب کی خبریں بتاتے تھے بلکہ جھاڑ پھونک سے علاج بھی کرتے، فال کے تیروں سے جھگڑوں کا فیصلہ کرتے، خوابوں کی تعبیریں دیتے، ریت میں لکیریں کھینچ کر --- جو علم رمل کی بنیاد ہے --- بعض احکام لگاتے وغیرہ وغیرہ۔ وہ اپنے رسوخ کی بنا پر بعض اوقات اپنے معتقدین سے ’’ یا عبادِ‘‘(اے میرے غلامو)کہہ کر خطاب کرتے اور وہ تعظیماً انہیں ’’ ربّ‘‘(بمعنی مالک و آقا)کہتے۔ حدیث میں کہانت اور رسومِ کہانت کی نفی وارد ہوئی ہے۔ کفار نے ازروئے عناد حضورﷺ کو شاعر، ساحر اور مجنون کے علاوہ ’’ کاہن ‘‘ بھی کہا، جس کا ذکر قرآنِ مجید میں آیا ہے۔ کاہنوں میں شق اور سطیح کے نام بہت مشہور ہیں۔ دونوں کا شمار عرب کے معمرین(طویل العمر لوگوں)میں ہوتا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تین سو برس کی عمر پائی اور ولادتِ نبویﷺ کے بعد وفات پائی۔ ان کی شخصیت دیو مالائی قسم کی ہے۔ شق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نصف انسان تھا، یعنی اس کے ایک ہاتھ، ایک پاؤں اور ایک آنکھ تھی۔ سطیح کے، سر کے سوا، کوئی ہڈی نہ تھی اور اسے کپڑے یا چٹائی کی طرح تہ کیا جاسکتا تھا۔ اس کیلئے بیٹھنا ممکن نہ تھا مگر جب جوش غضب میں تن جاتا تو بیٹھ جاتا تھا اواخر عمر میں بعض خوابوں کی تعبیر دیتے ہوئے شق اور سطیح دونوں نے آمد ِ نبوّت کی خبر دی۔ عمر و بن لْحَیّ بھی، جس نے عربوں میں بت پرستی کو رواج دیا، کاہن بتا یا گیا ہے۔ خْنافر بن التوم الحمیری(جو مشرف بہ اسلام ہوئے)اور سواد بن قارب الدوسی (جو صحابی ہوئے) بھی مشہور کاہنوں میں شمار ہوتے ہیں۔ کاہنوں کو قبیلوں یا علاقوں کی نسبت سے بھی یاد کیا جاتا،مثلاً’’کاہن قریش’’،’’کاہن الیمن‘‘، ’’ کاہن حضر موت‘‘وغیرہ۔ بہت سی کاہنہ عورتوں کے نام بھی ملتے ہیں۔ کاہن لوگ ایک مخصوص بوجھل سی مسجّع و مقفّٰی عبارت میں کلام کرتے تھے جسے ’’سجع الکہنان‘‘(کاہنوں کی سجع)کہا جاتا ہے۔ عرّاف عموماً اپنے اپنے علاقوں یا قبیلوں سے منسوب ہوتے تھے، مثلاً ’’عراف ہذیل‘‘ ، ’’عرّاف نجد‘‘، ’’عرّاف الیمامہ‘‘وغیرہ۔ قتیلِ عشق عْروہ بن حِزام نے اپنی بیماری ِدل کے حوالے سے کہا: ’’ میں نے یمامہ کے عرّاف کے لیے اور حجر کے عرّاف کے لیے منہ مانگا معاوضہ مقرر کیا، اگر وہ دونوں (مل کر بھی)میرے دْکھ کی دوا کر سکیں ‘‘۔