خون خوار لال شعلے آسماں تک بھڑکتے ہوئے تھے میری فلسطینی ماں موت خوف اور سہم کے کالے سایوں میں ڈر سی گئی تھی میں کہ اپنی ماں کے وجود سے بندھا اس خوف اور وحشت سے گھبرا کر وقت سے پہلے اس ہولناک دنیا میں وارد ہوا جہاں اربوں ڈالرز کا بارود بچوں کے کھلونوں، ان کی دودھ سے خالی بوتلوں اور ان کے نرم و نازک بدنوں پر گرایا جا رہا ہے ……… میں وقت سے پہلے پیدا ہوا میں ایک ایسے ہسپتال کے انکیوبیٹر میں رکھا گیا جس کی دیواریں بمباری میں ڈھے چکی ہیں ڈاکٹروں کے سفید کوٹ اور ان کے سٹیتھوسکوپ اوندھے پڑے ہیں یہ وہ شفا خانہ ہے جس کے مسیحا زخم خوردہ خود دنیا کی مسیحائی کے منتظر ہیں ماں کے وجود میں میرا قیام مکمل نہیں تھا پورے دنوں سے کچھ دن کم۔۔۔۔ سو مجھے مامتا بھری گود کی بجائے شیشے کے ایسے انکیو بیٹر میں رکھا گیا جہاں سے میں جنگ کے آدم خور شعلوں کو دیکھ سکتا ہوں میں خدشات اور خطرات پہچانتا ہوں جنگی بیڑے مزید تباہی پھیلانے کو روانہ ہوچکے ہیں۔ ہوائوں کو چیرتے جنگی طیارے بارود پھینکیں گے اور کسی بھی وقت اس ہسپتال کو ملیا میٹ کر دیں گے میں جس کی ڈھے چکی دیواروں کے پار ایک انکیوبیٹر پڑا ان دنوں کو پورا کر رہا ہوں جو مجھے اپنی ماں کے وجود میں کم ملے ……… دنیا کی بساط پر اپنی چالوں سے کھیل کا پانسا پلٹ دینے والے بڈھے سال خوردہ سنگدل عالمی لیڈر فیصلہ کر چکے ہیں کہ اپنی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں کھربوں ڈالر کے ہولناک اسلحہ اس بار غزہ کے چاند، ستاروں پر آزمائیں گے۔ اور پھولوں سے نازک بدنوں والے پاؤں پاؤں چلتے بچوں سے جینے کا حق چھین لیں گے۔ ………… یاد رکھو! دنیا کے جدید اسلحہ ساز فیکٹریوں میں تیار کیا ہوا اسلحہ بارود جنگی طیارے موت بانٹنے والے جنگی سامان سے لیس بحری بیڑے محصورین غزہ کو اتنی تکلیف اور نقصان نہیں دے رہے جو تکلیف اور نقصان مصلحت کوش مسلم دنیا کی مجرمانہ بے حسی اور پتھریلی خاموشی سے ہورہا ہے ! ……… غزہ کے نومولود ……… ہم ایسے وقت میں پیدا ہوئے جب غزہ کی مائیں اپنے بچوں کی ٹانگوں اور بازووں پر ان کے نام لکھ رہی ہیں کہ وہ جنگ میں مار دیے جائیں یا زخمی ہو کے ہسپتال کی راہداریوں میں پڑے ہوں تو ان کے مسخ شدہ بدن پہچان لیے جائیں۔۔۔! ……… دن بھر بہت مصروفیت رہی دوستوں کے ساتھ لنچ تھا۔۔کچھ ہنسی مذاق۔۔موبائل پر ٹک ٹک تصویروں کی سرگرمیوں میں میں تمھیں بھول گئی تھی۔ آنے والے شادی کے فنکشن کی تیاری میں جھلمل کپڑوں کی خریداری میں… میچنگ جیسے کاموں کی خواری میں میں تمھیں بھول گئی تھی رات فرصت کے پلنگ پر لیٹی دن بھر کا حساب کرتے ہوئے تم اپنے جنگ میں ادھڑے ہوے لہولہان بدن لیکر میرے تصور میں چلے آئے۔۔ اور اک کرب ناک شرمندگی روح کاٹ دینے والی بے بسی بن کے آنکھوں سے بہنے لگے … ……… غزہ کی ماؤں میں تم سے شرمندہ ہوں/میں تمھارا سامنا نہیں کرسکتی/اپنے بچے کو پیار کرتی ہوں تو تم یاد آتی ہو/ایک مجرمانہ احساس دل میں سولی کی طرح اترتا جاتا ہے /تم اپنے بدن میں پالے لعل و گہر کو/ جنگ کا ایندھن بنتا دیکھ رہی ہو/اور دنیا خاموش ہے غزہ کی ماؤں۔۔ میں تم سے شرمندہ اپنا منہ چھپاتی ہوں کہ میں اس بے حس دنیا کا حصہ ہوں جو تم پر ٹوٹنے والی قیامت پر اب تک خاموش ہے ! ……… میرابھالو زخمی ہے میری گڑیا مرچکی/میرے کھلونے ٹوٹ چکے /میری ماں باپ اور بھائی جنگ میں شہید ہوگئے/اور میں اپنے گھر کے ملبے تلے دبا تمھیں پکارتا ہوں۔۔ اے مسلم دنیا کے مصلحت کوش غلام حکمرانو۔۔ کیوں تم نے اپنی روح گروی رکھ دی۔۔ کچھ تو بولو/کیوں خاموش ہو اب تک؟؟