فیصل آباد سے جھنگ کا فاصلہ پینتالیس میل کا ہے جو ایک گھنٹے سے بھی کچھ کم وقت میں طے ہو گیا۔ جب میں اور شاردا حویلی میں داخل ہوئے تو اس کے باڈی گارڈ باہر ہی رک گئے۔ باختر ہمارے ساتھ ہی رہا۔ ’’میں تمھیں پہلے میاں جی سے ملواتی ہوں۔‘‘ شاردا بولی۔ مجھ سے پہلے باختر بول پڑا۔’’میں نماز پڑھنے چلا جائوں میڈم؟‘‘ اس نے شاردا سے پوچھا تھا۔ ’’فیصل آباد میں ہی پڑھ لیتے ۔ جب ہم روانہ ہورہے تھے، اذان ہو رہی تھی۔‘‘ ’’آپ وہاں سے روانہ ہونے کے لیے کارمیں بیٹھ چکی تھیں۔ مجھے ہمت نہیں ہوئی کہ آپ سے رکنے کے لیے کہوں ۔ ‘‘ ’’اچھا جائو۔‘‘شاردا نے کہا اور قدم بڑھا دیے۔ مجھے یہ بات زیادہ تو نہیں لیکن کچھ عجیب سی لگی۔ ہو سکتا ہے ایسے لوگوں کی تعداد کم نہ ہو جو سوٹ پہنتے ہوں اور نماز پڑھتے ہوں لیکن میری نظر میں ایسی دو ایک ہی مثالیں تھیں۔ میرے اعصاب پر کیوںکہ لشکر جھنگوی سوار تھا اس لیے مجھے خیال آیا، باختر کا تعلق لشکر جھنگوی سے تو نہیں؟ میرے ذہن میں یہ سوال اٹھنے کا سبب یہ تھا کہ ملک میں پھیلے ہوئے سبھی دہشت گرد خود کو سچا مسلمان سمجھتے ہیں صوم صلوٰۃ کے پابند ہوتے ہیں۔ مردود ملک اسحاق نے تو پیشانی پر ڈھٹا بھی بنا لیا تھا۔ یہ خیال میرے ذہن میں آیا توسہی لیکن میں نے اسے ذہن سے جھٹک بھی دیا۔ لشکر جھنگوی کا آدمی چودھری غلام رسول کی حویلی میں رہ کر کیا کرے گا! شاردا نے مجھے اپنے باپ سے ملوایا۔ اس نے راستے میں مجھے ان کا نام بتا دیا تھا۔ وہ مجھ سے بڑی شفقت سے پیش آئے۔ کھانے کا ذکر بھی چھڑا لیکن شاردا نے فیصل آباد میں میرے ساتھ کھانا کھا لیا تھا۔ وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گئی جو نہایت ماڈرن طرز پر سجا ہوا تھا۔ ’’تم میرے بستر پر آرام کرو ،میں ابھی آتی ہوں تمھارے لیے کمرا تیار کروادوں ۔‘‘ شاردا نے کہا۔؟’’ اور تیار کیا کروانا ہے، بس صفائی کروانی ہوگی۔ میر ی کئی دوست مجھ سے ملنے آتی رہتی ہیں ۔ ایک تو یہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہی ہے ۔ وہ تو بہت آتی ہے ۔ راستہ ہی آدھے گھنٹے کا ہے ۔ میں اسے بھی ایک دن کے لیے تو روک ہی لیتی ہوں ۔!‘‘ ’’مجھے اصطبل تو دکھائو۔‘‘ ’’ ایسی جلدی کیا ہے ! سویرے دیکھ لینا ۔ ‘‘ شاردا جواب دیتی ہوئی کمرے سے نکل گئی ۔ مجھے واقعی جلدی تھی ۔ میں اسی وقت کتوں والی سرکار کے علاقے کا رخ کرنا چاہتی تھی ۔ اور فیصلہ بھی کرچکی تھی کہ گھوڑے پر ہی جائوں گی ۔ ذہن میں لائحہ عمل بھی مرتب کرلیا تھا ۔ میں نے اپنے موبائل پر اپنے اسسٹنٹ سے رابطہ کیا جسے میں ہدایت کرچکی تھی کہ وہ جھنگ کے ہوٹل ’’مسکن ِ طیب ‘‘ میں قیام کرے ۔ اب میں اسے کچھ اور ہدایات دینا چاہتی تھی لیکن دے نہیں سکی ۔ شاردا فوراً ہی واپس آگئی تھی ۔ میں نے موبائل بند کردیا۔ ’’ ابھی اصطبل دیکھنے کی کیوں سوجھی تھی تمھیں؟‘‘ شاردا نے پوچھا ۔ ’’ میں اسی وقت جانا چاہتی ہوں ۔‘‘ ’’کتوں والی سرکار کے علاقے میں ؟ ‘‘شاردا حیران ہوئی اور جب میں نے اثبات میں جواب دیا تو بولی ۔’’میں نے تمھیں بتایا تو تھا کہ اجازت لیے بغیر کوئی اس علاقے میں داخل ہو تو نہ جانے کتے اس پر حملہ کردیتے ہیں ۔‘‘ ’’ اجازت کس سے لی جاتی ہے ؟‘‘ ’’ کتوں والی سرکار کے مریدوں سے ۔‘‘ شاردا نے بتایا ۔’’ وہ سارے شہر میں کاسہ لیے اپنے سرکار کی ایک شان دار مسجد بنوانے کے لیے چندہ مانگتے پھرتے ہیں ۔ انھی سے کہنا پڑتا ہے ۔ وہ ایک دن بعد بتاتے ہیں کہ ان کی سرکار نے اجازت دی یا نہیں دی ۔‘‘ ’’میں اجازت کے بغیر جانا چاہتی ہوں۔‘‘ پاگل ہوئی ہو کیا ؟‘‘ شاردا نے حیرت سے منہ پھاڑا۔‘‘ میں بغیر اجازت اور رات کو تو تمھیں ہر گز نہیں جانے دوں گی ۔‘‘ مجھے اس کے لہجے سے اندازہ ہوگیا کہ وہ مجھے اس وقت ہر گز نہیں جانے دے گی ۔ شاید میںنے ہوٹل میں قیام کرنے کی بہ جائے اس کے ساتھ اس کی حویلی آکر غلطی کی تھی لیکن اگر میں اس کے ساتھ نہ آتی تو مجھے کتوں والی سرکار کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہوتا جو ایک اہم سراغ تھا ۔ میں نے اس وقت اس کی بات مان لینا ہی مناسب سمجھا ۔ گیارہ بجے تک وہ مجھ سے اپنی دوستوں کی ، لندن میں تعلیم کے زمانے کی اور جانے کہاں کہاں کی باتیں کرتی رہی ، پھر مجھے اس کمرے میں لے گئی جس کی اس نے صفائی کروائی تھی ۔ ’’ تم اب نیند کے مزے لو ۔میں بھی اب سوئوں گی ۔‘‘ پھر وہ مجھے شب بہ خیر کہہ کر چلی گئی ۔میں نے اپنا سوٹ کیس کھولا جو حویلی ہی کا ایک ملازم کار سے نکال کر اس کمرے میں رکھ گیا تھا ۔ میں نے اس میں سے اپنے کپڑے نکالے ۔ کپڑے تبدیل کرکے میں بستر پر لیٹی ہی تھی کہ موبائل پر بانو کی کال آگئی ۔ میں نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا ۔’’اس وقت آپ کی آواز مجھے یقینا بہت اچھی لگے گی ۔ اگر آپ فون نہ کرتیں تو میں سونے سے پہلے کرتی ۔ میں جھنگ پہنچ چکی ہوں ۔‘‘ ’’ اور چوہدری غلام رسول کی حویلی میں ہو۔‘‘ میں چونک پڑی ۔ ’’یہ آپ کو کسیے معلوم ہوگیا ؟‘‘ بانو ہنس پڑیں۔‘‘ تم جانتی ہو کہ میں کسی بھی معاملے سے باخبر رہنا چاہتی ہوں تو باخبر ہوجاتی ہوں۔ یہ بتائو کہ اب ارادہ کیا ہے ۔؟‘‘ ’’ میں اپنا لائحہ عمل بتا دیتی ہوں ۔‘‘ میں نے کہا اور انہیں سب کچھ بتادیا ۔ بانو کچھ رک کر بولیں ۔’’یہ اچھا ہوا کہ تمہاری دوست نے تمھیں روک لیا ، اب کل رات ہی کو جانا ۔ ‘‘ ’’ کیا کل جانے سے کوئی فرق پڑے گا ۔‘‘ ’’ ہاں ۔ ‘‘ بانو نے کہا۔’’لیکن وہ تم کل ہی جان سکو گی ۔‘‘ ایک دو باتیں کرنے کے بعد بانو نے رابطہ منقطع کردیا ۔ دوسرے دن شاردا نے مجھے اصطبل دکھایا ۔ وہاں آٹھ گھوڑے تھے اور آٹھوں بہت شان دار تھے ۔ میں نے ان میں سے ایک کا انتخاب کرلیا ۔ ’’ اب باہر نکل کر کسی چندہ مانگنے والے سے کہنا ہوگا کہ تم کتوں والی سرکاری کی قدم بوسی کے لیے اجازت چاہتی ہو۔ اس سے ہمیں جواب کل ملے گا ۔‘‘ ’’ جہنم میں جھونکو اجازت کو ۔ کل تم نے مجھے روک لیا تھا ۔ آج رات تو میں جائوں گی ۔‘‘ یہاں میں اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف اتنا ہی لکھوں گی کہ میں نے شاردا سے اپنی بات منوا ہی لی ۔ اسی لیے میں نے راستہ بھی اچھی طرح سمجھ لیا ۔ جب میں گھوڑے پر سوار ہوکر حویلی سے نکلی تو شاردا کے چہرے پر تشویش کے آثار تھے ۔ وہ زیر لب کچھ بڑبڑا بھی رہی تھی ۔ شاید میری خیریت سے واپسی کی دعا مانگ رہی ہو ۔ میں بہ تدریج گھوڑے کی رفتار بڑھاتی رہی ۔ وہ ہوا سے باتیں کرنے لگتا لیکن جلد ہی ٹیلوں کا علاقہ آجانے کی وجہ سے مجھے اس کی رفتار کم کرنی پڑی ۔ اس وقت میں نے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنیں جو دور سے آرہی تھیں ۔ میرے اندازے کے مطابق بھونکنے کی وہ آوازیں سو ڈیڑھ سو کتوں کی ہوسکتی تھیں ۔ صدف کتوں سے کس طرح نبرد آزما ہوئی؟ کل کے اخبار میں پڑھیئے!