پاکستان بھر میں 8 فروری کو الیکشن تھا۔عوام نے اس میں بھر پور شرکت کی اور اپنے پسندیدہ امیدواروں اور پسندیدہ جماعتوں کو ووٹ ڈالے جو ان کا جائز حق تھا۔ان ڈالے گئے ووٹوں کا رزلٹ اسی شام آ جانا چائیے تھامگر رزلٹ کو جان بوجھ کر لٹکایا گیااور پھر 9 فروری کو عوام کے ووٹ پر بھرپور ڈاکہ ڈالا گیا۔ایک خاص جماعت کے امیدواروں کو بہت وزنی ووٹ مہیا کئے گئے شنید ہے کہ اس جماعت کے کم از کم پچاس امیدواروں کو زبردستی کامیاب کرایا یا دکھایا گیا۔یہ ووٹ کہاں سے آئے اور کیسے آئے اس کا جواب تو چیف الیکشن کمشنر ہی دے سکتے ہیں۔جو اس ملک میں بہت سی خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔ہمارے لیڈروں نے جو اس سارے گندے کھیل میں اپنے مفادات کے لئے شریک ہیں، اپنی لیڈری کا کوئی معیار نہیں رکھا ، جس پر افسوس ہی ہو سکتا ہے۔اس سلسلے میں ،میں فقط ایک حلقے کا تفصیلی جائزہ پیش کر رہا ہوں کہ لوگوں کو ہمارے لیڈروں کی اخلاقیات اور پستہ ذہنی کا بخوبی اندازہ ہو سکے۔میرا یہ جائزہ سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے ہے اور یہ تمام چیزیں اداروں کی ویب سائٹ پر موجود ہیں جنہیں کوئی بھی شخص آسانی سے حاصل کر سکتا ہے اور جن کے صحیح ہونے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ لاہور کا حلقہ این ۔اے۔ 130، لاہور14 گوالمنڈی، پرانی انارکلی، اسلام پورہ، لوئر مال، مزنگ، لٹن روڈ، قلعہ گوجر سنگھ ، موہنی روڈ ، شفیق آباداور بہت سے دیگر علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد چھ لاکھ آٹھ ہزار تین سو اٹھارہ 608,318ہے جن میں مرد ووٹر تین لاکھ تئیس ہزار ایک سو323100 ہیں جب کہ خواتین ووٹرز کی تعداد دو لاکھ پچاسی ہزار دو سو اٹھارہ 285,218ہے۔ اس علاقے میں تین سو چھہتر 376 پولنگ سٹیشن بنائے گئے ہیں۔اسی قومی اسمبلی کے حلقے کو نیچے ٹھیک دو صوبائی حلقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔لاہور میں بعض قومی اسمبلی کے حلقے ایسے بھی ہیں جہاں صوبائی کے تین اور چار حلقوں کا تھوڑا تھوڑا حصہ شامل کیا گیا ہے مگر یہ حلقہ صرف اور صرف دو حصوں میں منقسم ہے اور کسی تیسرے حلقے کا کچھ عمل دخل اس میں نہیں۔صوبائی حلقہ پی پی۔173 اور پی پی ۔174 کے مجموعی ووٹوںکی تعداد ، پول ہونے والے ووٹ اور پولنگ صتیشن بھی وہی ہیں جو قومی اسمبلی حلقہ 130 کے ہیں۔ جو شخص بھی پولنگ سٹیشن پر ووٹ ڈالنے آتا ہے ، اسے دو ووٹ دئیے جاتے ہیں۔ایک سبز جو قومی اسمبلی کے لئے ہوتا ہے اور دوسرا سفید جو صوبائی اسمبلی کے لئے ہوتا ہے۔وہ بیک وقت دو ووٹ ڈالتا ہے ۔ ایک ووٹ کوئی نہیں ڈالتا۔یوںدونوں صوبائی اسمبلیوں کے مجموعی پول شدہ ووٹوں کی تعداد اصولی طور پر قومی اسمبلی کے پول شدہ ووٹوں کے برابر ہونا چائیے ماسوائے ان چند ووٹوں کے فرق سے کہ جو کینسل کر دئیے گئے۔صوبائی حلقہ پی پی۔173 کے 26 امیدواروں نے مجموعی طور پر ایک لاکھ انتالیس ہزار ساٹھ (139,060) ووٹ حاصل کئے۔صوبائی حلقہ پی پی ۔174 کے 24 امیدواروں نے کل ستاسی ہزار آٹھ سو پانچ (87805) ووٹ حاصل کئے۔یوں دونوں صوبائی حلقوں میں دو لاکھ چھبیس ہزار آٹھ سو پینسٹھ (226,865) ووٹ کاسٹ ہوئے۔ہو سکتا ہے کہ سو یا دو سو ووٹ کینسل بھی ہوئے ہوں مگر وہ مجموعی تعداد پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔اب قومی اسمبلی کے کاسٹ شدہ ووٹوں کا جائزہ لیا جائے تو محترم نواز شریف کے ایک لاکھ اکہتر ہزار چوبیس(171,024)، محترمہ یاسمین راشد کے ایک لاکھ پندرہ ہزار ترتالیس (115043) ، خرم ریاض کے چوالیس سو چھپن (4456) اور خالد مسعود کے پچیس سو بیس ووٹوں کے ساتھ قومی اسمبلی کے لئے کاسٹ ہوئے ووٹوں کی کل تعداد دو لاکھ ترانوے ہزار ترتالیس (293,043) بنتی ہے۔ ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پر ہر شخص کوجو دو وو ووٹ دئیے گئے، ایک قومی اسمبلی کا اور دوسرا صوبائی اسمبلی کا۔ تعداد ایک جیسے ہونے کے باوجود رزلٹ کے وقت ان کی تعداد میں اس قدر فرق کیسے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ قومی اسمبلی کے امیدواران تو دو لاکھ ترانوے ہزار ترتالیس (293,043) ووٹ استعمال کریںمگر صوبائی اسمبلی کے لئے لوگ صرف دو لاکھ چھبیس ہزار آٹھ سو پینسٹھ (226,865) ووٹ استعمال کریں۔ان دونوں کے درمیان قط چھیا سٹھ ہزار ایک سو اتھہتر (66178) ووٹوں کا فرق ہے۔سیدھی سی بات جو زبان زد عام ہے کہ نواز شریف اپنے دفتر میں جیت کا جشن منانے جا رہے تھے جب انہیں اطلاع ملی کہ وہ مانسہرہ اور لاہور کے دونوں حلقوں سے ہار رہے ہیں۔ وہ جشن ادھورا چھوڑ کر واپس چلے گئے اس وقت تک ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ پانچ ہزارتھی جب کہ یاسمین راشد اس وقت ایک لاکھ پندرہ ہزار ووٹ لے کر جیت رہی تھیں۔ نواز شریف کی ہار کو جیت میںبدلنے کے لئے فوری طور پر جوڑ توڑ کیا گیا اور پینسٹھ ہزار (65000) جعلی ووٹوں کا بندوبست کرکے انہیں جتایا گیا۔ ہار جیت تو الیکشن کے کھیل کاایک حصہ ہے مگر اسے اس انداز سے لینا اور جیت کے لئے ایسے قدم اٹھانا ایک صاحب عزت سیاست دان کے لئے کوئی قابل عزت نہیں ہوتا۔ دنیا میں کونسا کامیاب انسان ایسا ہے کہ جس نے ہار نہ چکھی ہو۔ ہار تو ایک تجربہ ہے اپنی غلطیوں پر قابو پانے کا۔ اپنے غلط اقدامات کو سنوارنے کا۔مگر جھوٹی جیت کے لئے ہر حد سے گزر جانا انسان کے اپنے وقار کو تباہ کرتا ہے۔ایسی جیت کا اہتمام صرف نواز شریف ہی نہیں بہت سے مسلم لیگی رہنمائوں کے لئے کیا گیا۔اس مکروہ فعل کے پیچھے یہ جذبہ کارفرما تھا کہ جو جیت گیا سو جیت گیا، کوئی عدالت اور کوئی الیکشن کمیشن متاثرہ لوگوں کی بات سننے کو تیار نہیںہوتا۔ میں نے جو اعداد وشمار دئیے ہیں یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، ایک عام فہم شخص بھی ان کی مدد سے حالات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ مگر جانے کیوں عدلیہ سے بھی لوگوں کو امیدیں بہت ہیں مگر اس کی سست روی کا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔لیکن اس ملک میں اگر جمہوریت کو چلنا ہے تو عدلیہ کو ان کیسوں کو فوری سننا اور اس کرپٹ پریکٹس کے ذمہ داروں کو سزا بھی دینا ہو گی تاکہ لوگ مستقبل میں ایسے جوڑ توڑ سے جمہوریت کو داغدار نہ کریں۔