اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6عزت مآب ججوں کی جانب سے لکھے جانے والا خط اندھی نفرت اور عقیدت میں تقسیم ہوتے ہوئے پاکستان میں باہم تفریق کو نمایاں کرنے کی ایک اور مثال ہے۔ تیرے، میرے کے شور میں بٹے ایک ایسے معاشرے میں جہاں ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس اور صحافیوں میں تقسیم در تقسیم کی لکیریں زیادہ نمایاں ہونے کے ساتھ یہ آوازیں زیادہ توانا ہوتی جا رہی ہیں کہ فوج، سیاست، عدلیہ اور صحافت میں مداخلت کر رہی ہے۔ سیاست دان فوج اور عدلیہ سے اپنی بات منوانے کے لیے کمربستہ ہیں اور عدلیہ سیاست میں غلط طور پر اثر انداز ہو کر اپنے حدود پھلانگ رہی ہے اور صحافیوں کی ٹولیاں کہیں کاسہ لیس بن کر اور کہیں مختلف صف بندیوں میں پھکڑ پن کی حد تک ایک دوسرے پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر چمکتے دمکتے ستاروں نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے پھر انا پرستی، خود غرضی، مفاد پرستی، جھوٹ فریب اورتکبر جیسے اعمال ناموں کی دراز ہوتی فہرست ہے۔ جس نے 24کروڑ لوگوں کی رِنگ کے کارنر میں لا پھنسایا ہے اور اس کیفیت نے ہماری ثقافت، معیشت، معاشرت اور سیاست کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ رواداری، درگزر اور باہم محبت کے اوصاف سے محروم ہو کر رہ گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے مابین ذہن، دل، روح اور دین کے تمام کنکشن بھک سے اڑ گئے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ ہمارے اعمال کے اس اکھاڑے میں اس خط کی چھیڑ خانی یا دل لگی نے ایک بار پھر ہمارے عدالتی نظام ہی میں نہیں بلکہ ریاستی نظام کے بارے میں سوالات کی بھرمار کر دی ہے۔ ججوں کے خط سے پی ٹی آئی کا کوئی تعلق نہیں لیکن ان کا اصرارہے کہ یہ خط واضح کرتا ہے کہ عمران کو رگڑا لگانے کے لیے ججوں پر ریاست کی معاونت کرنے کا دبائو تھا۔ دوسری طرف تحریک کے مخالفین سوکنوں کی طرح خط لکھنے والوں کو طعنے دے رہے ہیں۔ سمجھ نہیں آئی کہ یہ جج صاحبان ایسا خط لکھنے پر کیوں آمادہ ہوئے اور یہ بھی کہ جسٹس(ر) شوکت صدیقی پر نازل ہوئے عتاب کے دوران ان کی زبانیں گنگ کیوں رہیں اور ان کا ضمیر عمران کی محبت میں انگڑائی لے کر کیونکر بیدار ہوا۔ دونوں جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا مناسب جواب فراہم کرنے کے لیے میرے پاس مستند انفارمیشن موجود نہیں ہیں اور اگر فرض کر لیجئے کہ وہ تمام حقائق مجھے معلوم بھی ہوتے تو شاید پھر بھی میں انہیں کھل کر بیان کرنے کی حماقت نہ کرتا اور چاروں طرف پھیلی ہوئی مایوسی، تنگدستی اور محرومی کے شور میں تھکے ہارے دل و دماغ پر جتنا بھی نام کے ضمیر کارتی برابر حصہ جو وجود میں اب بھی موجود ہے تقاضہ کر رہا ہے کہ مسائل اسی دن حل ہوں گے جب ہم سب مانیں گے کہ ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ یہ بھی مان لیں کہ سماج میں ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرتے ہیں۔ جو لوگ رہبری کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ یہ سوچیں تو سہی کہ ملک میرا تیرا نہیں یہ ہم سب کا ہے۔ معاشرے اختلاف کو قبول کر کے زندہ رہتے ہیں جمہوریت کی اصل روح یہی ہے کہ اکثریت کی بات مانی جائے اور اقلیت کی بات سنی جائے۔ آپ کو نہیں لگتا کہ ہم سب اپنے مفادات کے اسیر ہو گئے ہیں۔ اس لیے محبت و رواداری کی مہک سے محروم ہو گئے ہیں۔ ہم اکڑپن ،تکبر ،ضد ،خود سری اور انا کے پہاڑ پر چڑھ کر بھول بیٹھے ہیں کہ ہم کس عمودی چٹان پر کھڑے ہیں۔ تاریخ کا یہ صفحہ پڑھ لیجئے جو ہمیں بتلاتا ہے کہ دنیا میں قومیں بنتی ہیں برباد ہوتی ہیں آثار قدیمہ بنتی ہیں اور پھر ان آثاروں پر نئی بستیاں بس جاتی ہیں۔ تاریخ کے یہ اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری پرتعیش زندگیاں ہماری عیاشیاں ہمارے اللے تللے ہماری بربادی کا سبب بنی ہیں۔ درحقیقت ہماری چکا چوند زندگی کے انداز میں جو من حیث القوم ہماری بنیادوں میں سیم و تھور کا کام کرتی ہیں حکمرانوں کی لگژری درحقیقت وہ عفریت ہے جو بڑی بڑی سلطنتوں کی تباہی و بربادی کا سبب بنی انہیں نگل گئی یہ لگژری درحقیقت آرام طلبی اور سستی کی بنیاد رکھتی ہے۔ سستی انسان کو سمجھوتے پر مجبور کرتی ہے۔ پھر سمجھوتے میرٹ انصاف اور مساوات کے اصول کو چاٹ جاتے ہیں۔ بے انصافی انسان کو ظلم پر آمادہ کرتی ہے۔ ظلم قدرت کے انتقام کو آواز دیتا ہے اور قدرت قوموں سے انتقام لینے کے لیے ان پر بے ایمان، حریص، نا اہل اور بے وقوف لوگوں کو حکمران بنا دیتی ہے اور یوں روم کی سلطنت، یونان کی بادشاہت، اندلس کی ریاست، مغل شہنشاہیت ہو یا پھر ترک خلافت ہو دنیا کی بڑی بڑی مملکتیں خاک کا پیوند ہو جاتی ہیں اور تاریخ کے طالب علموں کے سوا ان کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں دنیا میں کوئی قوم اللہ کی محبوب نہیں اور کوئی ریاست الہامی نہیں۔ قدرت نے انسانوں اور قوموں کی بقاء کے لیے سات اصول وضع کر دیئے ہیں۔ یہ اصول میرٹ، برابری، احتساب، قانون، انصاف، مضبوط دفاع اور اخلاص میں جو قوم اور جو انسان ان اصولوں پر عمل کرتا ہے وہ قائم رہتا ہے اور جو قدرت کے ان اصولوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ وہ تباہ و برباد ہو جاتے یا ہو جاتی ہیں یہ قومیں خواہ رومن ہوں، یونانی ہوں، برطانوی ہوں، ایرانی ہوں اور یہ انسان خواہ جولیٹس سینرر ہوں، دارا ،سکندر اعظم یا یزید۔ بس یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ نا انصافی، ظلم زیادتی اور منافقت ہمیں توڑ دے گی ہمیں برباد کر دے گی۔ ہمیں اپنے اطوار بدلتے ہوں گے۔ ہم آج جہاں کھڑے ہیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور یاد رکھیں ہمارے اصل دشمن کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ ذرا تاریخ تو پڑھیں یہ تو عروج و زوال کی کہانی ہے۔ روم دنیا کا پہلا شہر تھا جس کی آبادی نے 10لاکھ کا ہندسہ چھوا تھا۔ ایک سو تین قبل مسیح میں روم میں دس لاکھ لوگ آباد تھے۔ حکومت پورے شہر کو گرم پانی سپلائی کرتی تھی۔ شہر میں نہانے کے 16سو تالاب تھے۔ تمام گلیاں پکی تھیں اور رات کو حکومت ان گلیوں میں سرکاری خرچ پر مشعلیں جلاتی تھی۔ روم کے تمام لوگوں کے پاس ذاتی گھر اور روزگار تھا۔ تمام لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ روم کی سلطنت چھ براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی پھر یہ سلطنت ہمارے آج کی طرح اللے تللوں میں پڑ گئی۔ اسی پر حریص ظالم اور مفاد پرست بادشاہ حکومت کرنے لگے اور پھر یہ سلطنت تاریخ کے اور ان میں جذب ہو گئی۔ سکندر اعظم جیسے یونان کے فاتحین مقدونیہ سے نکلے تو انہوں نے دس برسوں میں آدھی دنیا روند ڈالی۔ سکندر اعظم کی حکومت دنیا کے 51ممالک پر قائم تھی۔ ایران بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اس کا بادشاہ کسریٰ کہلاتا تھا اور اس کا حکم آدھی دنیا پر چلتا تھا۔ پھر یہ ان حکمرانوں کے کرتوت تھے۔ جس کے سبب یہ سلطنت تاریخ کے سمندروں میں جوہڑ بن کر رہ گئی۔ ہندوستان چھوٹا سا براعظم کہلاتا تھا۔ اس پر مغلوں نے کم و بیش ہزار سال تک حکومت کی لیکن پھر انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کی پگڑی کھول کر اس کے گلے میں ڈال دیں۔ تاریخ میں اس طرح کی عروج و زوال کی کہانیاں بھری پڑی ہیں۔ مگر خدارا گزرے ہوئے حقائق سے سبق تو سیکھیں ورنہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔