انتخابات کے بغیر جمہوریت ایک مذاق ہے۔ انتخابات کو ہی جمہوریت سمجھ لینا اس سے بھی بڑا مذاق ہے۔ اسی طرح یہ ماننا کہ باقاعدہ انتخابات سے جمہوریت اور حکومتی کارکردگی کے معیار میں بہتری آئے گی۔ ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ دنیا بھر میں ہونے والی حالیہ سیاسی پیش رفت اس امر کا ثبوت ہے۔ فرید زکریا کے بقول لبرل جمہوریتیں غیر لبرل ہو گئیں، آئینی لبرل ازم سے محروم یہ جمہوریتیں آزادیوں پر قد غن، تنازعات اور جنگ کو فروغ دینے کا سبب بن رہی ہے۔ مشہور امریکی اسکالر جوناتھن ایم کاٹز کا مشاہدہ ہے کہ 'امریکی جمہوریت کی کمزوری کا براہ راست تعلق اس استثنیٰ سے ہے جس کے ساتھ امریکہ جنگیں کرتا ہے۔ طویل عرصے سے بیرون ملک استعمال ہونے والے تشدد کو سیاسی طاقت حاصل کرنے کی حکمت عملی کے طور استعمال کیا جارہاہے۔ یہ استثنیٰ کیسے پیدا ہوا اور اسے برقرار کیسے رکھا جارہا ہے، اس پر بحث کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر یورپی طاقتیں نوآبادیات کے عروج کے دوران 'مکمل طور پر' جمہوری بننے پر یقین رکھتی تھیں۔ اس کے باوجود استعماری طاقتیں اپنے تنازعات کو بات چیت اور گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے میں ناکام رہیں، جس کے نتیجے میں 20 سال کے اندر دو عالمی جنگیں ہوئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مغربی ریاستیں 'دوسروں' کو خطرہ سمجھتی ہیں۔ منطقی طور پر اسے ختم کیا جانا چاہیے۔کوریا، ویتنام، لاؤس، نکاراگوا، ہیٹی، عراق اور افغانستان پر جارحیت کو ذہن میں لائیں۔ اس کے علاوہ، کیوبا، ایران، عراق، اور شمالی کوریا وغیرہ پر غیر انسانی پابندیوں کے نفاذ کو نظر انداز نہ کریں۔ یہ تباہ کن ہتھیار اندرونِ ملک اقتدار حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے۔ لیکن ساتھ ہی، ہر حملے کا استعمال امریکہ کے اندر اور اس سے باہر جنگ مخالف اور سماجی تحریکوں کو دبانے کے لیے کیا گیا۔ کاٹز کے تجزیے سے اتفاق کرتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ زیادہ تر لبرل اور قدامت پسند اسکالرز ان سماجی و اقتصادی عوامل کو نظر انداز کرتے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر ،خاص طور پر مغرب میں ،جمہوری طرز حکمرانی کو پس ِپشت ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔گلوبل اسٹیٹ آف ڈیموکریسی رپورٹ 2021 سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے سے کہیں زیادہ ممالک جمہوری زوال کا شکار ہیں جن میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ یعنی، آج دنیا کی دو تہائی سے زیادہ آبادی [نام نہاد] غیر جمہوری ممالک میں رہتی ہے۔ اگر جمہوریت کے زوال کا تعلق بیرونی جارحیت سے ہو سکتا ہے تو پھربدعنوانی، عدم مساوات، غربت اور جہالت سے اس کے ڈانڈے ملائے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مغرب کی نام نہاد ترقی یافتہ جمہوریتیں بھی اپنے ملکوں میں نسلی امتیاز اور عدم مساوات کے خاتمے میں ناکام رہی ہیں۔ ہندوستان میں بھی بلاتعطل انتخابی جمہوریت اچھی حکمرانی نہیں دے سکی، غربت ختم نہیں کر سکی اور مذہب، ذات پات اور صنفی تشدد کو ختم کرنے میں ناکام رہی۔ بھارت میں مودی ، برطانیہ میں بورس جانسن ، اور ٹرمپ کا امریکہ میں عروج یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ لازم نہیں کہ متواتر انتخابات کے انعقاد سے جمہوریت اور حکمرانی کے معیار میںبہتری آئے۔تو پھر، جمہوری طرز حکمرانی کے معیار کی کیا ضمانت دے سکتی ہے؟ غربت، عدم مساوات، جمہوریت، اور گورننس پر عالمی اشاریہ جات اور درجہ بندی کی رپورٹیں مزدور یونین ، جمہوریت اور حکمرانی کے معیار کے درمیان بہت مضبوط تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔ پاکستان دنیا میں سب سے کم (صرف 5.6%) یونین کثافت کے حامل ممالک میں سے ایک ہے، جب کہ ہندوستان میں یہ 12.8% ہے۔ یہ تضاد ورلڈ ڈیموکریسی انڈیکس پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان 123ویں اور بھارت 85ویں نمبر پر ہے۔ مختصراً، ملک وار اور خطہ وار موازنہ یونین کثافت اور جمہوریت/گورننس کے معیار کے درمیان مضبوط تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ تاریخی طور پر بھی یونین کی رکنیت میں کمی جمہوریت میں زوال کو ظاہر کرتی ہے۔ مغربی ممالک میں جہاں مزدور یونینوں کی رکنیت زیادہ ہے وہاں جمہوریت، گورننس اور خواتین کی حیثیت مضبوط ہے۔ مثال کے طور پر، نورڈک ممالک میں، یونین کثافت 60% اور 91% کے درمیان ہوتی ہے۔ ان ممالک کا ورلڈ ڈیموکریسی انڈیکس 2020 میں بھی سب سے زیادہ اسکور ہے اور مساوات ٹرسٹ کے مطابق نورڈک ممالک مغربی دنیا میں سب سے زیادہ مساوی معاشرے ہیں۔ امریکہ میں یونین کثافت 2000 میں 13 فیصد سے کم ہو کر 2018 میں 10 فیصد رہ گئی۔ اسی عرصے کے دوران، برطانیہ میں یہ 30 فیصد سے کم ہو کر 23 فیصد رہ گئی۔ تقریباً اس عرصے کے دوران، ہم دونوں ممالک میں انتہائی قوم پرست اور مہاجر مخالف رجحانات کے عروج کا مشاہدہ کرتے ہیں، جنہوں نے عراق اور افغانستان پر حملے کا بھی تجربہ کیا۔ ان غیر منصفانہ جنگوں نے حملہ آور ریاستوں کے شہریوں کی فلاح و بہبود کو بھی بری طرح متاثر کیا جس سے عوام میں شدید غصہ پیدا ہوا۔ مزدور یونینوں کے کمزور ہونے سیعدم مساوات جنم لیتی ہے۔ 2018 سے 2020 کے آخر تک، عالمی ارب پتیوں کی دولت میں 3.9 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا، جب کہ عالمی کارکنوں کی مشترکہ آمدنی میں 3.7 ٹریلین ڈالر کی کمی ہوئی۔' ایسا لگتا ہے کہ 'ٹاپ ٹیکس کی شرح میں نصف سے زیادہ کمی' کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ، 1980 اور 2017 کے درمیان، زیادہ تر یورپی ممالک میں نسبتاً غربت اور عدم مساوات میں اضافہ ہوا اور سب سے اوپر 1% نیچے والے 50% سے دو گنا زیادہ تیزی سے بڑھ گیا۔ مزدور یونینیں جمہوریت کو کیسے بہتر بناتی ہیں اورطرزِ حکمرانی میں بہتری لاتی ہیں کیونکہ منظم اور باضمیر سماجی تحریکیں سرمائے کی طاقت کو متوازن کرتی ہیں اورآجروں اور ریاست کی طاقت کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مزدور تحریکیں عوامی پالیسی سازی میں حصہ ڈالتی ہیں، حکام کو جوابدہ اور خدمات کی ترسیل کو تیز کرتی ہیں۔ مزدور یونین اپنے مجموعی ووٹ بینک کو انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔ پاکستان میں، جو لوگ معیاری حکمرانی میں بہتری، سرمایہ داروں کی طاقت میں کمی اور حکمرانوں کو عوام کے سامنے جوابدہ بنانا چاہتے ہیں، انہیں پورے ملک میں مضبوط اور ذمہ دار مزدور یونینزبنانے میں مدد کرنی چاہیے۔