پاکستان میں اس وقت سیاست کا وجود دہل رہاہے۔ تحریک انصاف 9مئی کے قابل مذمت واقعات تلے آ کر چُور چُور ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ پاکستانی سیاست کے تمام کردار جھوٹے پروپیگنڈے کی کشتی میں سوار ایک دوسرے پر بے رحمانہ تنقید کے تیر چلا رہے ہیں ،جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والے سیاست کے تمام کردار شش و پنج کے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پرعمران خان کے حمایتی نئی نئی ٹیکنیک ایجاد کرنے کی مشق کر رہے ہیں ۔پی ٹی آئی کے چیئرمین نت نئی جدتوں کے ساتھ اپنے دلچسپ اور انوکھے بیانئے تراش رہے ہیں اور اپنی بات کو بار بار دُہرا رہے ہیں کبھی وہ سائفر لہراتے ہیں کبھی وہ ریاست مدینے کا نعرہ لگاتے ہیں کبھی وہ انقلاب اور تبدیلی کی بات کرتے ہیں کبھی وہ للکارتے ہیں کبھی سہمی آواز اور درد مندانہ انداز میں سپہ سالار سے ملاقات کی خواہش ظاہر کرتے ہیں ۔دوسری طرف اتحادی حکومت ہے کہ اپنے سیاسی اثاثے کو تنور میں جھونکنے کے بعد اپنے ہر اقدام کے ذریعے غچہ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔اسے اندازہ ہے کہ اس کی سوا سال کی کارکردگی نے عوامی غیظ و غضب کو دعوت دی ہے۔پی ڈی ایم کا کمزور وکٹ پر بغیر تیاری کے میدان میں کودنے اور بعد میں اس کی جانب خوفناک حماقتیں کرنے کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ پاکستان کے عوام ان سے سخت نالاں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ 20صدی کی جماعتیں ہیں اور وہ ان نوجوانوں کو جو اس وقت 18سے 36سال کی درمیانی عمر میں ہیں کو اپنی جانب مائل نہیںکر سکیں۔21ویں صدی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ایک نئی سیاسی قوت کی گنجائش موجود ہے لیکن یہ پی ٹی آئی کی بدقسمتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے میدان سیاست میں آنے والی تیسری پارٹی خواہ مخواہ اس اسٹیبلشمنٹ سے الجھ پڑی جن کے کندھوں پر سوار ہو کر وہ اقتدار کے ایوان میں پہنچے میں کامیاب ہوئی تھی۔پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں کچھ پارٹیاں کبھی منظر عام پر ابھرتی دکھائی دیتی ہیں اور کبھی غائب ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔یوں تو دنیا میں ہر جگہ سوشل میڈیا کی دھوم ہے۔پاکستانی سیاست میں جہاں سوشل میڈیا ایک اہم رول ادا کر رہا ہے وہیں سوشل میڈیا نے حقیقی صحافت اور سچی اور مستند خبر کی اہمیت اور افادیت کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔جہاں نہ کوئی روک ٹوک ہے۔نہ خبر کی تحقیق کا کوئی رواج ہے اس میڈیم کے ذریعے آپ جو کہنا چاہتے ہیں وہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس میں اپنی خواہش اپنے ارادے اپنی پسند ناپسند ہمیشہ حاوی رہتی ہے۔ان میں سے 80فیصد وی لاگ‘براڈ کاسٹ‘ ٹک ٹاک اور دوسرے تمام ایپ پر جو مواد موجود ہے یا نت نئے انداز سے پیش کیا جا رہا ہے اس نے مستند خبر کی ساکھ کا ستیا ناس کر دیا ہے ہاں تفریح و طبع کے حوالے سے اس کا ایک مثبت کردار ضروری ہے ۔کہیں تو یہ میڈیم گائیڈ کرتا ہے کہیں یہ مس گائیڈ کرتا ہے۔اس میڈیم کو پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے اپنے امیج میکنگ اور اپنے مخالفین کی کردار کشی سے لے کر پرفارمنس تک ہر ایک کوشش میں اسے اپنا ہتھیار بنایا ہوا ہے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر قسم کی معلومات تک رسائی بہت آسان ہو گئی ۔اس نے کوئی اچھی روایات قائم نہیں کی ہیں۔ایک کے پیچھے خبروں کا جو سیلاب ہے اس میں جھوٹی خبروں کا تناسب سچی خبروں سے زیادہ ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ دنیا اب آپ کے پاس موجود فون میں سمٹ آئی ہے لیکن پھر معاملہ وہی ہے کہ آپ جو کچھ بیان کر رہے ہیں یہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کی کریڈیبلیٹی ہونی چاہیے اس وقت پاکستان میں عمران کی پی ٹی آئی نے اسے سب سے زیادہ استعمال کیا پھر یہ بات سب کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ آپ کسی بھی ایونٹ واقعہ یا اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ضرور کریں یہ آپ کا حق ہے لیکن یہ بھی زیر نظر رہے کہ کسی خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہرگز ہرگز درست نہیں۔ہاں ساتھ ساتھ آپ کے پاس ایسا میڈیم بھی ہے کہ اس کے ذریعے انسانی تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔آپ خود اپنے تجربات اور مشاہدات سے سیکھیں آپ کتابیں پڑھیں ۔ان کے ذریعیانسانی تجربات سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ ۔آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ عمران کی خوش بختیوں کا کوٹہ ختم ہو گیا ہے ہاں یہ درست ہے کہ یہ ان کے لئے مشکل دور ہے۔ان سے ایسی غلطی سرزد ہوئی ہے جس کے سبب ان کی پارٹی میں شگاف پڑ گئے ہیں۔ان کے جانثار بھاگ گئے ہیں۔انہیں چاہیے دو قدم پیچھے ہٹیں لمبی سانس لیں دیکھیں کہاں غلطی ہوئی۔آپ خواہ مخواہ امریکیوں سے الجھ پڑے ہیں آپ کے علاوہ نواز شریف سے بڑی غلطی یہ ہوئی ہے کہ آپ قانون دانوں کی باتوں میں آ گئے۔قانون کا بے شمار علم رکھنے والے ضروری نہیں سیاست بھی جانتے ہوں۔عمران کو نہ جانے یہ مشورہ کس نے دیا تھا کہ قومی اسمبلی جیسے مضبوط پلیٹ فارم کو چھوڑ دیں۔پھر یہ بھی قت تھی کہ انہوں نے اپنے قانونی مشیروں کی باتوں میں آ کر 70فیصد پاکستان کا اختیار اور اقتدار خواہ مخواہ پنجاب اور سرحد کی اسمبلیاں توڑ کر اپنے ہاتھ سے گنوا دیا اور اپنے مخالفین کو طشتری میں رکھ کر پیش کر دیا۔مجھے تو لگتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں صرف دو ایسے نامور قانون دان تھے جو قانون کی پگڈنڈیوں پر چلنے کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملہ فہمی میں اپنی مثال آپ تھے۔یہ حسین شہید سہروردی اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔نواز شریف نے بھی یہ غلطی کی تھی کہ وہ سیاسی معاملے کو عدالتوں کے کمروں میں حل کرنا چاہتے تھے انہیں بہت سے لوگوں نے سمجھایا تھا لیکن وہ اس باریک حقیقت کو نہ سمجھ سکے میں تو سمجھتا ہوں کہ بھٹو جیسا جینئس بھی یہاں دھوکہ کھا گیا ان کے خلاف جو کچھ ہوا وہ سیاسی نوعیت کا تھا لیکن وہ اسے قانونی جنگ سے بدلنا چاہتے تھے ۔پھر عمران خان اپنی جھنجھلاہٹ اور حکمت عملی کے تحت امریکیوں سے الجھ پڑے یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ جس دن روسیوں نے یوکرین پر حملہ کیا عمران کو اسی دن سہ پہر میں روسی صدر پیوٹن سے ملاقات کرنی تھی اس دن وہ ماسکو میں موجود تھے ۔صبح ان کے پاس امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ کا فون آیا جن کا اصرار تھا کہ وہ پیوٹن سے ملے بغیر احتجاجاً لوٹ جائیں لیکن عمران نے شیڈول کے مطابق میلادی پیوٹن سے ملاقات کی۔اس سے لازمی بات ہے کہ امریکیوں کے ماتھے پر شکنیں پڑی ہوں گی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکیوں نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں متعدد بار مداخلت کی 65میں ایوب خان کے خلاف انہوں نے جنرل اعظم کو اُکسایا تھا کہ وہ فوجی آفیسروں کے ساتھ مل کر ان کا تختہ الٹ دیں لیکن انہوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ ایوب خان کو مطلع کر دیا تھا پھر 1992ء میں انہوں نے جنرل آصف نواز کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک کر دیا جائے تو امریکہ کسی مارشل لاء کی مخالفت نہیں کرے گا یہ ساری تلخ حقیقتیں ہماری تاریخ کا حصہ ہیں لیکن ہم نادان بنے ہوئے ہیں۔