امریکہ جس کی ساری معیشت جنگ و جدال پر چلتی ہو، وہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد کیسے خاموش بیٹھ سکتا تھا۔ یوں تو دنیا بھر میں چھوٹے چھوٹے جنگی میدان مسلسل سجے رہتے ہیں مگر ان محاذوں میں استعمال ہونے والے اسلحہ کی مقدار اتنی کم ہے کہ یہ امریکہ اسلحہ سازی کی سلطنت جسے ’’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘‘ کہتے ہیں، اس کی ہوس پوری نہیں کر سکتی اس لئے امریکہ کو ہمیشہ ایک بڑے بحران کی ضرورت رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ جب طالبان کے ساتھ افغان سرزمین چھوڑنے کا معاہدہ کر رہا تھا تو ساتھ ہی ایک نئے محاذِ جنگ کی تیاریوں میں بھی مصروف تھا۔ آج ان تیاریوں کی بنیاد پر سجنے والا جنگی میدان (War Theater) بالکل واضح اور عیاں ہے۔ اس میدان کا ہدف یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی کسی صورت بھی چین اور روس کو معیشت کے میدان میں آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ نومبر 2019ء میں پینٹاگون نے ہند اور بحرالکاہل (Indo Pacific) کے بارے میں جو پلان اپنے مستقبل کے عالمی منظرنامے کے طور پر پیش کیا، اس کے بنیادی مقاصد دو تھے، (1) چین کو مزید بڑھنے سے روکنا (Containment) اور (2) روس کی طاقت اور قوت کا خاتمہ کرنا۔ یہ دونوں مقاصد اس وقت تک حاصل نہیں کئے جا سکتے تھے جب تک دو ممالک، پاکستان اور یوکرین کو یا تو مکمل طور پر اپنی کالونی یا گیریژن نہ بنا لیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر دونوں ممالک کو معاشی بدحالی اور خانہ جنگی میں اس قدر مبتلا رکھا جائے کہ روس اور چین کے لئے ان دونوں ممالک کو راستوں کے طور پر استعمال کرنا ممکن نہ رہے۔ یہ بڑی جنگ جن بڑی قوتوں نے لڑنی ہے ان میں یورپ کے تمام ممالک، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ اس کا محاذ آہستہ آہستہ گرم ہو رہا ہے۔ یہ سست روی کا شکار بھی ہو سکتا ہے مگر مستقل آمدنی کے لئے تو امریکہ اور اس کے حواریوں نے گذشتہ ایک سو سال سے ایک محاذ کو ہمیشہ گرم کر رکھا اور وہ ہے مشرقِ وسطیٰ۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد اتحادی افواج خلافتِ عثمانیہ پر چڑھ دوڑیں اور اس کے حصے بخرے کرنے کے بعد ان کے درمیان دُنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر آباد کر کے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ اور ایک ایسے میدانِ جنگ کی چنگاری سُلگائی گئی جس کے بارے میں تینوں ابراہیمی مذاہب، یہودیت، عیسائیت اور اسلام دُنیا کے خاتمے سے ذرا پہلے تک ایک بڑی عالمی جنگ کے انتظار میں ہیں۔ ایسا میدانِ کارزار جو کائنات کے اختتام تک چلے گا۔ 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کے بعد سے یہ محاذ ایک مسلسل بھڑکتا ہوا الائو ہے۔ قومی ریاستوں میں تقسیم کردہ عرب دُنیا اسے اسلام اور کفر کی نہیں بلکہ عرب اسرائیل تنازعہ اور فلسطینی قومیت کی جنگ سمجھتے ہیں۔ جنگِ عظیم اوّل کے اتحادیوں نے عرب دُنیا کو زیرِنگیں رکھنے کے لئے یہاں کے کچھ ممالک میں عرب قبائلی سربراہوں کو بادشاہ بنایا تھا اور کچھ ممالک میں سیکولر، لبرل ڈکٹیٹر بٹھا دیئے۔ لیبیا سے لے کر عراق تک کے علاقے میں اس عرب لیگ کے بائیس ممبر ملک ہیں، لیکن ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس میں اسلامی حکومت قائم ہو۔ ان ممالک کے ڈکٹیٹروں اور مغرب کے سیکولر، لبرل حکمرانوں کے نظریات، بودوباش اور لائف سٹائل میں کوئی خاص فرق نہیں، جبکہ ان عرب بادشاہوں کا رہن سہن اور بودوباش بھی کسی زارِ روس یا رومن سیزر سے مختلف نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ستر سالوں میں عرب ممالک کے شہریوں اور ان کے حکمرانوں کے درمیان تصورات و خیالات میں 360 ڈگری کا اختلاف ہے۔ ان تمام عرب ممالک کو پہلے اسرائیل جیسے چھوٹے سے ملک سے بھی اپنے تحفظ کے لئے اسلحہ خریدنا پڑتا تھا اور ساتھ ہی اپنے عوام کی نفرت کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی امریکی افواج کو اپنے ہاں اڈے دینا پڑتے تھے۔ لیکن 1979ء کے ایرانی انقلاب نے جیسے خطے میں ایک طوفان برپا کر دیا ۔ آیت اللہ خمینی نے عرب بادشاہتوں کے خلاف جس جنگ کا اعلان کیا تھا وہ آہستہ آہستہ سُلگنے لگی۔ کبھی معاملہ گرم ہو جاتا اور کبھی ٹھنڈا۔ اس کشمکش کے علاوہ پہلے ایران عراق جنگ، پھر عراق کویت جنگ اور آخر میں امریکہ عراق جنگ نے پورے خطے کے نظامِ امن کو ہی برباد کر کے رکھ دیا۔ عرب دُنیا کے بائیس ممالک کے حکمران اپنے اپنے ملکوں میں موجود باغی گروپوں، پراکسیز (Proxies) اور گیارہ ستمبر کے بعد جہادی گروہوں کے سامنے تقریباً بے بس ہوتے چلے گئے۔ ایسے میں 2011ء میں ان تمام ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوریت کی بالادستی کے لئے ’’عرب بہار‘‘ کے نام پر ایسی تحریکیں شروع ہوئیں جن کے نتیجے میں خطے کے اکثر ممالک خوفناک خانہ جنگی میں جھونک دیئے گئے۔ اور یہ آج تک اس افراتفری سے نہیں نکل سکے۔ ان ممالک میں لبنان، شام، عراق، سعودی عرب اور یمن ایسے گروہوں یا پراکسیز (Proxies) کی جنگ میں مبتلا ہیں جو یا تو ایران کے پاسداران سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر القاعدہ، داعش اور دیگر جہادی گروہوں نے وہاں بنا رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمزور عرب حکمرانوں کا دفاعی انحصار حیران کن طور پر اسرائیل پر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وہ یہودی ریاست جس کے ساتھ وہ گذشتہ ستر سال سے حالتِ جنگ میں تھے۔ متحدہ عرب امارات نے حوثی باغیوں کے حملوں سے بچنے کے لئے فروری 2022ء میں، اسرائیل کے گرین پائن (Green Pine) ریڈار حاصل کئے جو اس وقت دُنیا میں میزائلوں کا حملہ روکنے کیلئے سب سے کامیاب سمجھے جاتے ہیں۔ حوثی باغیوں کے حملے سے نہ صرف متحدہ عرب امارات متاثر ہو رہا ہے بلکہ خود سعودی عرب پر بار بار حملوں کی وجہ بھی یہ خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے۔ اس خوف کے عالم میں عرب بادشاہ اور سیکولر، لبرل ڈکیٹر دُنیا کی دونوں عالمی قوتوں کی جانب اپنے تحفظ کے لئے مسلسل دیکھ رہے تھے کہ پینٹاگون کا ہند و بحرالکاہل کاپلان آ گیا اور پھر یوکرین جنگ شروع ہو گئی۔ اب عرب ممالک کے تیل تک چین کی دسترس کو روکنا اور اس خطے کو روس کے اثر و نفوذ سے دُور رکھنا امریکہ نے اپنی حکمتِ عملی کا حصہ بنا لیا۔ یوکرین کی جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ کو اپنے قابو میں رکھنے اور وہاں موجود وسائل کو استعمال میں لانے کے لئے گذشتہ دو ماہ سے امریکہ اور عرب ممالک کے پسِ پردہ لاتعداد رابطے جاری تھے۔ ایسے لگتا تھا جیسے بڑی جنگ سے پہلے صف بندیاں ہو رہی ہیں اور عرب ممالک کو خاص طور پر گھیرا جا رہا ہے۔ تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ اب وہ مرحلہ آن پہنچا ہے کہ تمام عرب ممالک اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مل کر ایک ایسا گروپ تشکیل دے رہے ہیں جس کے خدوخال جنگِ عظیم دوّم کے بعد بننے والے نیٹو جیسے ہوں گے۔ اس نئے اتحاد کی بنیاد 13 اگست 2020ء رکھی گئی تھی جب اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین اور امریکہ نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا اور پھر 15 ستمبر 2020ء کو ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جسے ابراہیمی معاہدہ (Abraham Accord) کہتے ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں آباد تینوں ابراہیمی مذاہب اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے ماننے والے ممالک اپنا ایک مشترکہ دفاعی نظام بنائیں۔ اس معاہدے کے تحت امریکی کانگریس میں ایک ’’کاکس‘‘ (Caucus) قائم ہے جس نے کانگریس میں 8 جون 2020ء کو ایک بل پیش کیا ہے جس کا نام ہے "Deterring Enemy Force and Enabling National Defense Act" (DEFEND Act)۔ اس ایکٹ کی کانگریس سے منظوری کے بعد کیا کچھ ہو سکتا ہے، یہ سب ایک حیرت کدہ ہے۔ (جاری ہے)