اگرچہ مہنگائی کروڑوں پاکستانیوں کے لیے وبالِ جان بنی ہوئی ہے کہ فیصلہ ہی نہیں ہوپا رہا کہ ناقدرے روپے ، پیسے کو معیاری خوراک پر خرچ کریں یا کہ بیماریوں کے علاج پر، لیکن ہم بخوبی جان گئے ہیں کہ مہنگائی کوئی آسمان سے اتری بلا نہیں بلکہ ہوس کے مارے لوگوں کی تخلیق ہے۔ اسے گھڑا، پالش کیا گیاہے، اس کی نمائش اور تشہیر کی گئی ہے تب ہی لوگوں نے اس کے وجود پر یقین کرنا اور اسے برداشت کرنا سیکھا۔ حکومتی ٹیم کی بات دل کو لگتی ہے کہ مہنگائی کا وجود ہی نہیں ہے۔ لیکن ہم اس تکفیری مہم کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم وہ نہیں کہ ’مخالفین‘ کی ضد میں کسی سچ کا انکار کردیں۔اس کے برعکس ہم شعوری طور پر اس حقیقت کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ مہنگائی زیادہ سے زیادہ ایک عارضی لمحہ ہوسکتی ہے وگرنہ یہ سراسر جادوگری ، فریب اور دھوکا ہے۔ اصولی طور پر جسے نہیں ہونا چاہیے، وہ ہمارے سامنے سنگار ، سنوار کر لا کھڑی کر دی گئی ہے۔ ویسے ہی جیسے مقامی حکومتوں اور احتساب کے بغیر جمہوریت۔ مہنگائی ایک ٹیکس ہے جو دھوکے اور فراڈ سے ایسے لوگوں پر نافذ کردیا گیا ہے جنہیں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ بیماریوں سے فرصت نہیں ، بچوں کی تعلیم و تربیت کا بوجھ سر پر ہے۔ وہ جنہیں ریاست کے دستِ شفقت کی ضرورت ہے ، انہیں کا چمڑا اگر ادھیڑا جار ہا ہے تو یقینی طور پر یہ ظلم ہے ۔ مہنگائی معیشت ہی نہیں معاشرت کو گھن کی طرح چاٹتی ہے۔ خبر تب لگتی ہے جب بادِ خزاں کے کسی ایک جھونکے سے پورے کا پورا ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آ گرتا ہے۔ زیب ِداستان کے لیے بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن ہم جس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں وہ ہمیں تفریحی پہلوئوں سے کوسوں دور رہنے کا درس دیتا ہے اور ان اسباب وعوامل کی طرف توجہ دینے کا کہتا ہے جنہوں نے لوگوں کی زندگی کو حیرت و یاس کی تصویر بنا دیا ہے۔ ہمیں وہ بھلے وقت یاد ہیں جب مہنگائی اور غربت ، دونوں کا تصور تک نہیں تھا۔ اشیائے خورد ونوش سستی ہوں تو بھلا کس کو فکر کہ ڈالر کا بھائو کیا چل رہا ہے۔ ہم اس بھوک اور بیماری سے آزاد معاشرے کا تذکرہ بہت کرچکے ہیں اور ان خود دار لوگوں کا بھی جو خوراک کے مسئلے کو طلب و رسد کے جھنجھٹ سے کوسوں دور رکھتے تھے۔ وادی سندھ میں پروان چڑھنے والا زمیندارانہ معاشرہ جو اپنی اگاتا اور اپنی کھاتا تھا۔ یہ تب تک تھا جب تک ڈیم نہیں بنے تھے، دریا اپنی ہی باہوں میں شرما کر نہیں سمٹے تھے، نہروں اورسڑکوں کا جال نہیں بچھا تھا اور بجلی سے گھر روشن نہیں ہوئے تھے۔ شہر اور دیہات باہم ایک ہوئے تو پیسہ ، جو بنکوں کے پاس ہی ہوتا تھا اورخدمت پیشہ لوگ ہی اس کے طالب رہتے۔ زمیندارانہ معاشرے کی بھی ضرورت بن گیا۔ خوراک کی پیدوار سے نظر ہٹی اور نقد آور فصلوں پر چلی گئی۔ بیرونی منڈیوں میں اپنا مقام بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ پیدا وارکی دھن ایسے سوار ہوئی کہ ہم بھول ہی گئے کہ ہم طلب و رسد کی دلدل میں گر رہے ہیں۔خوراک کی خود کفیلی کے نام پرصرف گندم ہی اگائی جارہی ہے۔ باجرہ، مکئی ، دالیں اور خوردنی تیل درآمد ہوتے ہیں۔ ایک تو دور دراز کی منڈیوں سے انہیں بحری جہازوں پر لاد کر لایا جاتا ہے، دوسرے ہم حسن اتفاق سے درآمدی معیشت ہیں۔ چونکہ طلب مستقل ہے اور آبادی کے تناسب سے بڑھ رہی ہے، حکومتوں کو مستقل آمدنی کا ذریعہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ آڑھتی ، دلال ، بنیے اور ذخیرہ اندوز مل کر ان کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دیتے ہیں۔ وہ جاگیردار طبقہ جس کے لیے ڈیم بنائے گئے ہیں اور وہ ساٹھ فیصد زمینی وسائل پر قابض ہے ، کپاس اور گنا اگاتا ہے کہ یہ نقد آور فصلیں اس کے لیے مقامی پلانٹوں پر مہنگے پرزوں اور سپیئر پارٹس سے تیار شدہ گاڑیوں اور دیگر سامان تعیش کی فراہمی ممکن بنائیں۔مون سون کی بارشوں سے حاصل شدہ سیلابی پانی کی ہمیں کوئی افادیت نظر نہیں آتی کہ جنگلات کے ذریعے اس کے بہائو کو دھیما کریں۔ سیلابی پانی کو صحراوں میں چینلوں کی صورت بہایا جائے، ریتلی زمین میں جذب ہو، سارا سال قدرتی طور پر جھیلوں میں اٹکا رہے۔ دالیں اور سرسوں کاشت ہوں۔ مویشیوں کو چراگاہیں ملیں۔ دودھ، دہی ، مکھن کی پیداوار وافر مقدار میں ہو۔ شہروں میں تازہ مچھلی دستیاب رہے۔ دریاوں پر ڈیم بن گئے، پانی کا بہائو کم ہوا تو اس کی گزرگاہوں میں نہریں گاڑ دی گئیں اور فصلیں کاشت ہوگئیں۔ صحراوں کو گل و گلزار میں تبدیل کرنے والی نہروں کے کنارے دور دراز سے لائے غیر حاضر زمیندار وں کو زمینیں الاٹ ہوئیں۔ تھل میں جہاں دریائے سندھ چینلوں کی صورت میں چالیس کلومیٹر کے دائرے میں بہتا تھا، اب سکڑ کر بارہ کلومیٹر رہ گیا ہے۔ تین دریا اسی کمرشل کاشتکاری کے چکر میں بیچ دیے گئے۔ پانی کے بیجا استعمال اور سبسڈی کی مدمیں اربوں ڈکارنے کے بعد کہنے کو زراعت اب بہت ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ملک کی بیشتر آبادی بھوک کا شکار ہے۔ مائیں ہی تندرست نہیں تو بچے کہاں صحت مند جنم دیں گی۔ مناسب خوراک نہیں ملتی تو ان پر جوانی ہی نہیں آپاتی۔ بچپن سے ہی بڑھاپے کی سیڑھی پر قدم رکھ دیتی ہیں۔ ان امیر زادوں کے ہاتھ میں ہی اس ملک کی باگ ڈور رہتی ہے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ غیر ملکی تعلیمی اداروں سے تربیت لیتے ہیں، اعلٰی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ ان کا ایک قدم پاکستان اور دوسرا دیار غیر میں رہتا ہے۔ جمہوریت ہو یا آمریت انہیں کا طوطی بولتا ہے۔مارکیٹ پر بھی انہیں قبضہ ہے، سیاست پر بھی۔ پالیسیاں وہی بنتی ہیں جن کا فائدہ چند سو خاندانوں سے ما سوا نہ ہو۔دریاوں سے دور ویرانوں میں ان کے رقبے نہروں سے سیراب ہوتے ہیں اور آبادی کا وہ حصہ صدیوں سے جو لب دریا آبا د ہے، بھوک اور بیماری کی اندھیر نگری میں گم ہو چکا ہے۔ دریاوں کے اندر ہی نہیں کناروں پر بھی ریت اڑتی ہے۔ مچھلی ، دالیں، مویشی اور جنگل ، کچھ بھی نہیں بچا۔ اشیائے خوردونوش ٹیکسوں کی زد میںآجائیں تب ہی مہنگائی ہوتی ہے۔ ایسا صرف ظلمی سیاست سے ہی ممکن ہے۔ اس سیاست کے کردار بھی واضح ہیں اور ان کے لچھن بھی۔مذہب اور نظریہ کا تقدس بگاڑنے کے بعد تبدیلی کا نعرہ بچا تھا ، وہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔