بھارت کے مشرق میں آسام کا صوبہ ہے۔ اس صو بے کے مغرب میں پہاڑی علاقہ ہے جہاں گھنے جنگل ہیں۔ اس پہاڑی علاقے میں گھنے جنگلوں کے درمیاں چھوٹی چھوٹی خوبصورت وادیاں ہیں ۔ شاندارا ٓبشاریں ہیں، حسین جھرنے ہیں اور میٹھے پانی کے چشمے ہیں۔ان گھنے جنگلات میں ایک خاص قبیلہ آباد ہے ۔ اس قبیلے کا نام میزو قبیلہ ہے۔یہ قبیلہ کبھی بھارتی حکمرانوں سے بر سر پیکار رہا ہے ۔ ان کی خواہش تھی کہ انہیں خود مختاری دی جائے۔وہ آسام کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے۔دوسرا ان کا آسام سے کچھ سرحدی تنازعہ تھا۔ وہ اپنی پوری حد اپنی نئی ریاست میں شامل کرنا چاہتے تھے۔یہ جنگ کئی سال جاری رہی اور با لآخر بھارتی حکومت نے ان کا مطالبہ مان کر20 جنوری 1987 کو ان کے لئے میزو رام کے نام سے ایک نئی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔جس کا اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا جس کی حکومت مرکز کے تحت کام کرتی ہے۔ آج کل یہاں کے وزیر اعلیٰ لال دھوما ہیں ، جنہوں نے وزیر اعلیٰ کا8 دسمبر 2023 کو حلف اٹھایا تھا۔ میزو اس قبیلے کا نام ہے اور ان کی مقامی بولی میں رام کے معنیٰ زمین یا دھرتی کے ہیں۔ تو میزو رام کا مطلب،میزو قبیلے کی دھرتی یا میزوئوں کی سر زمین ہے۔اس علاقے میں دس بارہ ہل سٹیشن ہیں جن میں سے ایک آئیزاول (Aizawl) اس ریاست کا کیپیٹل ہے۔ یہ ریاست اپنے قدرتی حسن کی وجہ سے دنیا بھر میں سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔یہاں راستے بہت کم ہیں ۔ ہر ہل سٹیشن تک پہنچنے کے لئے خاصے خطرناک راستوں سے گزر کر وہاں پہنچنا پڑتا ہے۔ سیاح یہاں پہنچ کر آرام اور سکون سے قیام کرتے اور فطرت کا بڑی دلچسپی سے مطالعہ کرتے ہیں۔وہاں سکون ہے جس کا ہر شخص متلاشی ہوتا ہے۔ کل تک یہ علاقہ بہت پسماندہ تھا مگر آج بے پناہ سیاحت کے سبب یہ ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے اور علاقہ بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس وقت یہاں کی فی کس آمدن تین لاکھ آٹھ ہزار پانچ سو اکہتر روپے (308571) سالانہ ہے اور جس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اندرونی ہل سٹیشنوں پر اشیا کی ترسیل چونکہ قدرے مشکل ہے اس لئے یہاں بھارت کے دوسرے حصوں کی نسبت کچھ مہنگائی ہے۔یہاں کی کل آبادی گیارہ لاکھ ہے۔یہاں کا مذہب عیسائیت ہے اور آبادی کے 87 فیصد لوگ عیسائی ہیں۔ بدھ مت کے پیرو کار تقریباً 8 فیصد ہیں۔اکتیس ہزار (31000) کے قریب ہندو وہاں آباد ہیں جو کل آبادی کا 3.55 فیصد ہیں۔ ہندوئوں کے اس پورے علاقے میں بارہ مندر ہیں اور ان کو گورکھے کنٹرول کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی تقریباً پندرہ (15000)ہزار سے کچھ کم ہے اور مسلمان کل آبادی کا 1.35 فیصد ہیں۔یہاں مسلمانوں کی تین مسجدیں ہیں مگر عید کی نمازوہاں کے کیپیٹل ایزوال کے ہائی سکول کی گرائونڈ میں پڑھی جاتی ہے۔اس ریاست سے گزرنے والی نیشنل ہائی وے آٹھ سو اکہتر (871)کلو میٹر لمبی ہیں جو اس علاقے کو آسام اور منی پور سے ملاتی ہیں۔ بنگلہ دیش اور برما کی تجارت بھی انہی راستوں سے ہوتی ہے۔اس ریاست کی ایک خاص چیز جسے دیکھنے اور ملنے کے لئے لوگ دور دور سے آتے تھے اور آتے ہیں وہاں کے رہائشی زیونا چانا (Ziona Chana)اور اس کا خاندان ہے۔ چانا خاندانی نام ہے جب کہ زیونا اس کا اپنا نام۔ افسوس کہ زیونا چانا13 جون 2021 کو فوت ہو گیا۔ مگر اس کا خاندان اب بھی سیاحوں کے لئے دنیا کے ایک عجوبے سے کم نہیں۔زیونا نے اپنی زندگی میں کتنی شادیاں کیں، یہ اسے ٹھیک سے یاد نہیں مگر اس وقت اس کی 39 بیویاںحیات ہیں اور اس کے بچوں کی تعداد اس وقت 94 ہے ، بگھتا وانگ، میزورام کا ایک قصبہ ہے ۔ اس قصبے میں ایک چار منزلہ عمارت ہے جس میں سو کمرے ہیں۔اس ہوسٹل نماعمارت میں یہ تمام افراد ہنسی خوشی ایک ساتھ رہتے ہیں۔اسی بلڈنگ کے ساتھ ایک مہمان خانہ ہے ، جہاں آنے والے سیاح قیام کرتے ہیں۔اس علاقے میں آنے والے لوگ اس خاندان کو دیکھنے خصوصی طور پر اس قصبے کا چکر لگاتے اور ان سے ملتے ہیں۔وہاں ٹھہرتے ہیں اور ان کا رہن سہن دیکھتے ہیں۔یہ موجودہ دور میں دنیا کا سب سے بڑاخاندان اور ایک جاندار عجوبہ ہے ۔ زیونا نے اپنی زندگی میں ایک انٹریو میں بتایا کہ اسے یاد نہیں کہ اس نے کل کتنی شادیاں کیں، کیونکہ اس کی کچھ بیویاں مر چکی ہیں ، مگر جو باقی اس وقت زندہ اور اس کے ساتھ رہ رہی ہیں ان کی تعداد صرف 39 ہے۔وہاں شادی تو عیسائی رسم و رواج کے مطابق ہی ہو تی ہے مگر منگنی کے بعد لڑکے اور لڑکی کو آپس میں ملنے کی پوری آزادی ہوتی ہے کہ منگنی کے دوران وہ ایک دوسرے کو سمجھ اور جان سکیں۔ ایک دوسرے کی عادتوں سے واقف ہو سکیں تاکہ بعد میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ ایک ایسا سال بھی تھا جب زیونا نے دس شادیاں کیں۔زیونا کی وفات کے بعد 24 گھنٹے تک سب کو یقین تھا کہ زیونا زندہ ہے ۔ کہتے کہ اس کے جسم میں حرارت ہے اور اس کی نبض چل رہی ہے مگر اس کے بعد انہیں یقین ہو گیا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں۔ اس کی وفات کا یقین ہونے کے بعد اس کی سب سے بڑی اور پہلی بیوی کو فیملی کا سربراہ چن لیا گیا۔زیتھنگی (Zathiange) زیونا کی بڑی بیوی اب اس فیملی کی سربراہ کے طور پر سارے معاملات پوری خوش اسلوبی سے دیکھتی اور سارے نظام کر پوری معاملہ فہمی سے چلا رہی ہے۔یہ خاندان اپنے ہر معاملے میں پوری طرح خود کفیل ہے ۔ یہ اپنے گھر کے ارد گرد اور قریبی زمینوں پر کاشت کر کے اپنی ضرورت سے زیادہ غلہ پیدا کرتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے لئے انہوں نے اپنا ایک سکول بنایا ہوا ہے جس کا سلیبس تو وہی ہے جو حکومت نے عام سکولوں کے لئے ترتیب دیا ہوا ہے البتہ اپنے مذہبی نظریات کے مطابق ان کی ترویج کے لئے کچھ چیزیںعلیحدہ سے سلیبس میں شامل کی گئی ہیں۔ اس سکول کے سارے معاملات بھی یہ خاندان خود دیکھتا ہے۔زیونا کی وفات کے بعد بھی اس خاندان میں کسی قسم کا کوئی جھگڑا یا اختلاف کبھی نظر نہیں آیا۔یوں اس دھرتی پر موجودسب سے بڑا خاندان ، ہر لحاظ سے خود کفیل ، ہنسی خوشی زندگی گزار رہا ہے۔