ماہ پارہ صفدر ان نیوز ریڈرز میں سے ہیں، جو اسی کی دہائی میں ٹی وی سکرین کا حصہ بنی اور آتے ہی اپنی پروقار شخصیت اور انداز تکلم کی بنیاد پر چھا گئیں۔پاکستان کے ان گنت گھرانوں کی طرح ہمارے گھر بھی ان کا نام بہت جانا پہچانا اور پسندیدہ تھا ، یہاں تک کہ میری بڑی بہن کی تیسری بیٹی کا نام انہی کے نام پر ماہ پارہ رکھا گیا جو ابو جان نے تجویز کیا۔میرا زمانہ میری کہانی ماہ پارہ صفدر کی خود نوشت ہے ۔اسّی کی دہائی میں ٹیلی ویژن دیکھنے والے ماہ پارہ صفدر کے نام سے واقف ہیں،ایک ہی سرکاری ٹی وی ہوتا تھا اور اس پر 9 بجے کا خبرنامہ پورے پاکستان کے لوگوں کی توجہ کھینچتا۔سو اس دور میں ٹی وی سے وابستہ افراد خواہ وہ اداکاری کے شعبے سے ہوں یا خبریں پڑھنے کے شعبے سے ہوں وہ لوگوں کے ذہنوں میں ایسے نقش ہوئے کہ آج تک محو نہ ہوسکے۔ کتاب کوتین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حصہ اوّل میں ماہ پارہ صفدر نے اپنے بچپن لڑکپن اپنے والدین اپنی بہنوں کے بارے میں لکھا ہے۔ابتدائی برس انہوں نے خوشاب اور سرگودھا میں گزارے۔ان کی والدہ شمس الزہرا ایک دور اندیش،اور سمجھدار گھریلو خاتون تھیں جبکہ والد سید حسن عباس زیدی اسکول میں پڑھاتے تھے دونوں اپنی چھ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور زندگی میں ان کی ترقی اور کامیابی کے خواہاں تھے کم وسائل کے باوجود انہوں نے اپنی چھ بیٹیوں کو اعلی تعلیم دلوائی،کتاب کے دوسرا حصہ ماہ پارہ صفدر کی پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں ہے یہ 70 اور 80 کی دہائی کا زمانہ تھا جب پاکستان کی سیاست بھی ہنگامہ خیز تھی بھی بہت تبدیلیاں ہو رہی تھیں اور سماجی سطح پر بھی ایک تبدیلی کا عمل شروع ہوچکا تھا۔مگر اس وقت تک لڑکیوں کے لیے ریڈیو اور ٹی وی پر خبریں پڑھنے کی ملازمت کو ابھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔سرگودھا سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کا ریڈیو اور پھر ٹی وی پر خبریں پڑھنا اچھنبے کی بات تھی۔کتاب کا آخری اور تیسرا حصہ ان یادوں پر مشتمل ہے، جب وہ بطور نیوز ریڈر پاکستان میں اپنے کیریئر میں کامیاب تھیں لیکن انہوں نے بہتر مستقبل کے لیے بی بی سی ریڈیو کی اردو سروس کو جوائن کیا۔ اس وقت ان کے شوہر صفدر ھمدانی جاپان کے ٹوکیو ریڈیو سے وابستہ تھے اور وہ تنہا اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ لندن میں کیریئر کا آغاز کرنے پہنچیں۔ پاکستان میں انکی آواز چہرہ اور نام ایک طاقتور شناخت رکھتا تھا۔ اس طاقتور شناخت کو لے کر جب وہ پردیس میں گئی برطانیہ میں ان کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔پارہ صفدر کی خود نوشت پڑھنے والے دراصل اس میں اپنے اس ماضی کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو آج بھی ان کے اندر بستا ہے۔ مجھے اس کتاب کا وہ حصہ بہت دلچسپ لگا انہوں نے اس دور کے اپنے ساتھی نیوزکاسٹرز کے بارے میں لکھا ہے۔خالد حمید اظہر لودھی شائستہ زید کی بارے لکھا۔کچھ دلچسپ یادیں بھی انہوں نے قارئین سے بانٹی ہیں مثلا اس دور میں جب پی ٹی وی راولپنڈی میں تھا تو سٹوڈیو فوج کی بیرکوں میں عارضی طور پر بنے ہوئے تھے نیوز ریڈر خبریں پڑھتے ہوئے وہاں کی مکھیوں چوہوں اور چھپکلیوں سے گھبرائے رہتے۔ کتاب میں اور بھی بہت سے دلچسپ واقعات ہیں ، وہ امید سے تھی اور دوہفتوںکے بعد ان کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع تھی، دفتر سے گاڑی انہیں لینے آ چکی تھی مگر انہیں طبیعت میں کچھ خرابی محسوس ہوئی پروڈیوسر سے معذرت کر کے گاڑی کو واپس بھیج دیا اور اسی شام چند گھنٹوں کے بعد ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی لکھتی ہیں کہ کافی عرصہ تک میرے ساتھی کو لیگز اس واقعے کو یاد کر کے کہتے رہے کہ یہ خبر اخبار کی سرخی بنتے بنتے رہ گئیں شکر ہے آپ ٹی وی سٹوڈیو کی بجائے اس روز اسپتال چلی گئیں۔یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہے کہ پروفیشنل خواتین عام گھر میں رہنے والی خواتین کی نسبت کتنی سخت جان بھی ہوتی ہیں اور کیسے کیسے مراحل بظاہر ہنستے کھیلتے گزر جاتی ہیں، جنرل ضیاء الحق کے بارے میں انھوں نے لکھا کہ وہ خبرنامے میں خاص دلچسپی رکھتے تھے اور نو بجے کا خبرنامہ ہر صورت دیکھتے یہاں تک کہ اگر وہ کسی مصروفیت کے باعث خبرنامہ نہیں دیکھ پاتے تھے تو انہیں خبر نامے کی ریکارڈنگ بھیجی جاتی یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ان سے ملاقات ہوئی جنرل صاحب انہیں نام سے پکارتے۔ خبریں پڑھنے والی خواتین نیوز کاسٹرز کے کپڑوں اور ان کی میچنگ پر بھی خاص نظر رکھتے تھے۔ انہیں تمام نیوز ریڈرز کے نام یاد تھے، وہ لکھتی ہیں کہ ایک کانفرنس میں ثریا شہاب ارجمند شاہین اور وہ خود موجود تھی تو جنرل ضیا ہمیں دیکھ کر ہماری طرف آئے اور ازراہ مذاق کہا ساری نیوز ریڈرز تو یہاں موجود ہیں آج خبرنامہ کون پڑھے گا۔کتاب کے تینوں حصے اپنی جگہ دلچسپ ہیں لیکن مجھے ان کی بچپن اور ابتدائی عمر کی یادیں دل موہ لینے والی لگی۔اس حصے کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے انہوں نے اپنے ماضی کے دھندلکوں سے بچپن کی یادوں کے موتی کس محبت سے چنے ہیں کہ بعض اوقات پڑھتے ہوئے آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے ان کی یادوں کو پڑھتے ہوئے میں خود ایک میڈیا پرسن کی حیثیت سے ان تجربات اور مشاہدات کی آنچ محسوس کرتی رہی۔خواتین کو پروفیشنل ماحول میں بھی بعض نان پروفیشنل مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ماہ پارہ صفدر نے بڑی بہادری سے ایک دو ایسے واقعات کتاب میں تحریر کیے ہیں۔ خود نوشت لکھنا بڑے جگرے کی بات ہے اور پھر ایک خاتون کے لیے خود نوشت لکھنا یقینا آسان فیصلہ نہیں تھا۔ہمارے ہاں خود نوشت کم لکھی جاتی ہے کیوں کہ ادھورا سچ بولنا بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہ ایک تنگ ہوئے رسے پر چلنے والی بات ہے اور ماہ پارہ اس میں کامیاب رہیں ہیں۔کہیں کہیں سیاست پر طویل تبصرے تحریر کو بوجھل کرتے میں مگر مجموعی طور پر یہ ایک دلچسپ خود نوشت ہے جسے بک کارنر جہلم نے اہتمام سے شائع کیا۔