نوے کے عشرے میں مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر سے کشمیری ہندو پنڈتوں کی نقل مکانی پر بنی ایک نئی فلم ’’کشمیرفائلز‘‘ ایک جھوٹی کہانی ہے ۔ سفاک قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ کشمیری مسلمانوں کے قتل عام کے مقابلے میں صرف 19یاپھر35کشمیری ہندوپنڈت مرگئے تو فلم بنا لی گئی اورکشمیری مسلمانوںکو ظالم اورکشمیری ہندوئوںکومظلوم بناکر پیش کر دیا گیا۔ اس فلم کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو بد نام کرنا اوران کی شبییہ کومسخ کرکے دنیاکے سامنے پیش کرناہے ۔کذب بیانی پر مبنی یہ فلم کشمیری مسلمانوں کے خلاف ایک مہیب سازش ہے جس کے پیچھے نریندمودی اوراسکی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کاسازشی دماغ ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور اُن کی حکومت کے اہم وزرا ء نے اس فلم کی تعریف کی ہے اورمودی سرکار میں بچوں اور خواتین کی بہبود کی وزیر سمرتی ایرانی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لوگوں سے اس فلم کو دیکھنے پر زور دیا۔ اور لکھا کہ اس فلم کو دیکھیں تاکہ ہمارے کشمیری ہندئووںکے خون میں ڈوبی تاریخ خود کو دوبارہ نہ دہرایا جائے۔بھارت کی متعدد ایسی ریاستوں، جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، میں اس فلم کو نمائش کے لیے پیش کرنے پر عائد ہونے والے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے جبکہ ریاست مدھیا پردیش میں پولیس اہلکاروں کو فلم دیکھنے کے لیے ایک دن کی چھٹی دینے کا بھی اعلان کیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی ایک سخت اور گرما گرم بحث چھیڑ دی ہے۔بھارت کاہندوتوابریگیڈ اورکشمیری ہندو پنڈت اس فلم کوایک سچی کہانی کے طورپرپیش کررہے ہیں جبکہ بھارت کے ناقدین اورکشمیری مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس فلم میں حقائق کو چھپایا گیا ہے، کشمیری مسلمانوں کوظالم اورکشمیری ہندوئوں کومظلوم بنا کر اسلاموفوبیاکے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ اصل اورسچی کہانی یہ ہے کہ مقبوضہ ریاست جموںوکشمیر کے مسلم اکثریت نے کشمیری ہندو اقلیت کوکبھی نہیں مارااوراس ریاست میں کبھی بھی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے ۔کشمیری ہندو پنڈت جو وادی کشمیر چھوڑ کرچلے گئے تھے ان میں سے چند کنبے پھر سے واپس اپنے گھروں کولوٹ آئے ہیں اور آج ان کی تعداد 10ہزاربتائی جاتی ہے وہ وادی کشمیر میں اپنے تہوار روایتی جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں ۔ آج بھی کسی بستی میں اگر کوئی کشمیری ہندو پنڈت مرجا تا ہے تو اس کی آخری رسومات مسلمان ادا کرتے ہیں ۔ تقسیم ہند کے بعد سے اب تک بھارت میں 37000ہزار سے زائد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا خطہ ہمیشہ ان فرقہ وارانہ فسادات سے پاک رہا۔ 1990 میں بھارتی جبری قبضے کو توڑنے کے لئے کشمیر میں جہاد بالسیف شروع ہوتے ہی دہلی کی طرف سے مقبوضہ جموںوکشمیرمیںتعینات اس وقت کے انتہائی متعصب ہندو گورنرجگ موہن جس نے اس سے قبل دہلی کے ترکمان گیٹ پر مسلمانوں کاقتل عام کرایا تھانے، کشمیری ہندو پنڈتوں کو کشمیر چھوڑنے پر اکسایا اورکشمیری ہندو پنڈت اس سفاک شخص کے دام فریب میں آئے اوربدنام زمانہ گورنر جگ موہن اور بھارتی قابض فوج کے تیارکردہ ایک خفیہ منصوبے کے تحت ایک رات کے اندرفوجی ٹرکوں اوربسوں پرسوارہوکرتمام کشمیری ہندوپنڈت جن کی تعداد دولاکھ نفوس پر مشتمل تھی وادی کشمیر چھوڑ کر چلے گئے۔ بدنام زمانہ گورنر جگ موہن نے کشمیری پنڈتوں کو کشمیر سے جونہی بھگایاتو اسلامیان کشمیر کے خلاف قاتل قابض بھارتی فوج نے (Catch and Kill) یعنی پکڑواورقتل کروکے نام پر آپریشن شروع کیاجس میںہزاروں کشمیری نوجوانوں کوگھروں اورراہ چلتے ہوئے پکڑا گیا اور شہید کردیا گیا۔اس دوران صرف 19جبکہ کٹھ پتلی سرکارکے اپنے اعدادوشمار کے مطابق 35کشمیری ہندو پنڈت بھی مشکوک حالت میںقتل ہوئے جن میں سے چند ایک کومجاہدین نے بھارتی فوج کے لئے مخبری کرنے کے جرم میں کیفرکردارتک پہنچایا اور باقیوںکو بھارتی فوج نے مجاہدین سے ڈرانے اورانہیں خوفزدہ کرنے کے لئے قتل کر دیا۔ نوے کی دہائی کے ابتدائی ماہ وسال کے دوران سفاک بھارتی فوج نے کئی خونین آپریشن کر کے کشمیری مسلمانوں کاقتل عام کیااوران کی بستیوں کوتاراج کردیا سری نگرکے گائو کدل اور خانیارکے قتل عام کے ساتھ ساتھ سیبوں کے باغات سے ڈھکے قصبہ سوپور،بڈکوٹ ہندوارہ ،قصبہ کپوارہ اور بجبہاڑہ میںکشمیری مسلمانوں پر اندھادھندگولیاں برسائیں گئیں اورسینکڑوں عام شہروںکو شہید کر دیا گیا اوربستیوں کی بستیاں نذرآتش کردیں گئیں اورپاک دامن خواتین کشمیر کی عزتیں پامال کردی گئیں اور سفاک بھارتی فوج کے ہاتھوں1990سے لیکرآج کی تاریخ تک کشمیری مسلمانوں کی جان ومال کا اتلاف جاری ہے ۔واہ رے قاتل ایک لاکھ کشمیری مسلمانوں کی شہادت کے مقابلے میں 19 یا پھر 35 کشمیری ہندوپنڈت مرگئے تو مسلمان ظالم ٹھرے اورکشمیری ہندومظلوم ۔ ہندوقوم پرست جماعت بی جے پی نے اس متنازع خطے میں کشمیری پنڈتوں کے وادی سے نکالے جانے کے معاملے کو انتخابی مہم کے دوران استعمال کیا تھا۔مقبوضہ کشمیر میں گورنرراج کے خاتمے کے بعد2002میں بھی بھارت نوازجماعت پی ڈی پی سرکارنے کشمیری پنڈتوں کی کشمیر واپسی کی جانب قدم اٹھایا جبکہ بھارت نوازجماعت نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی حکومت نے بھی کچھ کوششیں کی تھیں اورتواورکشمیرکی دونوںحریت کانفرنسوں اور اسے باہرجماعتوں کے لیڈران یاسین ملک اور شبیرشاہ نے روزاول سے پنڈتوں کی واپسی کے لئے ہمیشہ انکی منت سماجت کرکے اپنی جانب سے حتی المقدور کوششیں بھی کی ہیں لیکن کشمیری ہندو پنڈتوں نے وادی کشمیرآنے سے یہ کہتے ہوئے صاف انکار کر دیا کہ جب تک نہ ہمارے لئے فوجی حصار والی کالونیاں بنائی جائیں تب تک ہم واپس نہیں آسکتے۔ بھارت نے کشمیری پنڈتوں کامطالبہ مان لیااوران کیلئے علیحدہ ٹائون شپ بنانے کیلئے ہزاروںکنال اراضی کی نشاندہی کی ۔اس طرح بھارت ایک گھنائونے منصوبے کے تحت مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے اندر فرقہ وارانہ بنیادوں پر اسرائیل طرزکی ایک اور ریاست بناناچاہتاہے اور اس آڑ میں ریاست سے باہر لوگوں کو لا نے اور پھر بسانے اور اس طرح ریاست کے مسلم تشخص کوختم کرنیکی سازش تیار کی جاچکی ہے ۔ 1990سے ہی بی جے پی نے آر ایس ایس کی وساطت سے کشمیر ی پنڈتوں کیلئے وادی میں ایک مخصوص کالونیاں بنانے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں اسپتال ،کالج ،سکول سمیت تمام بنیادی سہولیات میسر ہوں دراصل میں وہ وہی منصوبہ ہے جو اسرائیل نے اپنایا اور اب آر ایس ایس اسی منصوبے کو یہاں عملا رہی ہے اور آر ایس ایس کشمیر میں نفرت کی دیوار کھڑا کرکے یہاں آگ پھیلانا چاہتی ہے ۔لیکن اسلامیان کشمیر آر ایس ایس منصوبوں کو یہاں نافذ کرنے کی قطعا اجازت نہیں دیں گے۔