مینا خان کابل یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں اپنا حقیقی نام انہوں نے عدم تحفظ کے پیش نظر بدل رکھا ہے ان کا کہنا ہے لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کا طالبان کا فیصلہ بہت خوفناک ہے۔وہ کہتی ہیں کہ میری طالبات بہت پریشان ہیں اوروہ اپنے مستقبل کے بارے میں بے یقینی کا شکار ہیں یہ لڑکیاں بہت قابل اور لائق ہیں۔ جو سوشل سائنسز اور ٹیکنالوجی میں علم حاصل کرکے اپنے مستقبل کو سنوارنا چاہتی ہیں ان کی آنکھوں باشعور اور خوبصورت زندگی کے بہت خواب ہیں وہ جہالت کی تاریکی میں نہیں رہنا چاہتی وہ احتجاج کررہی ہیں کہ ان پر اعلی تعلیم کے دروازے بند نہ کئے جائیں۔ مینا خان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنا دور یاد آ رہا ہے جب وہ یونیورسٹی کی طالبہ تھیں۔ یہ 1993,سے 2001 تک طالبان کا پہلا دور۔تھا جو خواتین کے لیے بہت سخت ثابت ہوا۔ان کے خلاف کڑے قوانین بنائے گے ان پر علم حاصل کرنے کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔مینا خان کی طرح پاکستان کی تمام پڑھے لکھے اور باشعور خواتین کے یہی تاثرات ہیں طالبان کا خواتین پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کرنے کا اعلان کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔اس پر طالبات کی طرف سے بھی سخت رد عمل خدشات کے باوجود طالبات یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر جمع ہوئیں اور انہوں نے اپنے حق کے لیے آواز بلند کی۔ طالبان کے پہلے دور حکومت سے لے کر اب تک انٹرنیٹ کے انقلاب نے دنیا کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ انٹر نیٹ ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل دنیا کے انقلاب کو دیکھیں تو درمیان کے بیس برس پوری ایک صدی کے مترادف ہیں۔ خیال یہ تھا کہ اس دور کے طالبان خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں کے حوالے سے لچکدار رویہ اختیار کریں گے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے انقلاب کے اثرات خود ان کی زندگیوں پر دکھائی دے ر ہے ہیں طالبان کے ہاتھوں میں اسمارٹ فونز ہیں ان کے پاس قیمتی گاڑیاں ہیں وہ انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں سوشل میڈیا پر متحرک ہیں ۔ ٹوئٹر استعمال کرتے ٹوئیٹس کرتے ہیں امید تھی کہ وہ تیزی سے بدلتے ہوئے دنیا کے تقاضوں کو سمجھیں گے آگے اور افغانستان کی تقریبا 80 فیصد آبادی کو تعلیم سائنس اور ٹیکنالوجی سے محروم کرنے کے غلط فیصلے نہیں کریں گے کریں۔ اس فیصلے نے جہاں افغانستان کے لوگوں کو بہت مایوس کیا ہے وہیں دنیا بھر ان پر تنقید ہورہی ہے ۔ گزشتہ سال اگست میں طالبان نے افغانستان پر کنٹرول سنبھالا اور صرف دو ہفتے کے مختصر وقت میں امریکی بیساکھیوں پر قائم کی گئی افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت افغانستان سے چلتا کیا۔ساری دنیا نے وہ منظر اپنے ٹی وی سکرینوں پر دیکھا کہ جب طالبان کابل میں داخل ہو رہے تھے، تو ان کے ہاتھوں میں رائفل کے ساتھ اسمارٹ فون بھی تھے۔حقیقت یہ تھی کہ اس بار طالبان نے رائفل سے زیادہ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کا شاطرانہ استعمال کیا ، انھوں نے واٹس ایپ گروپ کے ذریعے اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے رابطوں کو مضبوط رکھا، اپنے پیغام کو پہنچایا اور اپنی اگلی موومنٹ کو خفیہ رکھا کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ طالبان انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنے آپ کو اتنا مضبوط کر لیں گے۔ بعد میں طالبان کے ایک نمائندے نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ سمارٹ فون کے استعمال نے انہیں اپنے لائحہ عمل میں شاندار کامیابی دی۔اگر طالبان اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ جب تک آپ نئے علوم پر دسترس حاصل نہیں کرتے ٹیکنالوجی کا علم نہیں سیکھتے آپ محض اپنے افکار کی بنیاد پر تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ سورج کی طرح روشن سچائی پر مبنی اس حقیقت کو اگر وہ اپنی زندگی پر لاگو کرتے ہیں تو پھر وہ افغانستان کی اڑتالیس فیصد آبادی یعنی خواتین کو جہالت کے اندھیروں میں رکھ کر کیوں خود کو تباہی سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔گزشتہ برس اگست میں طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالتے ہی افغانستان کی اسی 48 فیصد آبادی میں شدید عدم تحفظ پیدا ہو گیا کہ اب پھر ان کے تعلیم کے راستے بند کر دیئے جائیں گے اور پھر توقعات کے عین مطابق کا آغاز میں خواتین کے سیکنڈری سکول اور یونیورسٹیوں کو بند کر دیا گیا۔ پھر چھ ماہ کے بعد 23 مارچ 2022 وہ خوبصورت دن تھا جب کابل میں اور پورے افغانستان میں بچوں کے اسکول کھول دیے گئے۔لیکن اس وقت بھی یہ خدشہ دلوں میں موجود تھا کہ طالبان خواتین پر اعلی تعلیم کے دروازے بند کر دیں اور یہ درست ثابت ہوا۔ زرغونہ کابل یونیورسٹی میں اسلامک لاء اور شریعہ کی طالبہ ہے، اس کا کہنا ہے کہ کون طالبان کو سمجھائے کہ اسلام عورت کو علم حاصل کرنے اور زندگی گزارنے کے یکساں مواقع دیتا ہے۔طالبان حکومت کے سخت اور غیر لچکدار پالیسیوں کا رد عمل ہے کہ افغان خواتین آپس میں متحد ہو رہی ہوں ان میں ایسے گروپ بن رہے ہیں جو کیا اس ماحول میں ایک دوسرے کو سہارا دے رہے ہیں ۔ لیلی بشام ایک ایسی ہی باشعور افغان خاتون ہے جس نے ایک لائبریری بنائی ہے اور وہ خواتین کو کتابیں مہیا کرتی ہے اس کا کہنا ہے کہ وہ خواتین جو کسی وجہ سے یونیورسٹی نہیں جا پا رہی یا طالبان نے ان پر یونیورسٹیز کے دروازے بند کر دیے ہیں تو ان پر علم سیکھنے کا سلسلہ بند نہیں ہونا چاہیے۔ جب سے طالبان نے خواتین پر اعلی تعلیم کے دروازے بند کرنے کا اعلان کیا ہے مغربی دنیا نے بھی اس پہ شدید تحفظات کا ا ظہار کیا ہے۔اسلامی آرگنائزیشن سمیت جتنی بھی اسلامی ملکوں کی عالمی تنظیمیں ہیں ۔ انہیں اس موقع کردار ادا کرنا چاہیے۔ اپنے وفد کابل بھیجیں اور طالبان پراخلاقی دباو ڈالیں کہ وہ خواتین پر اعلی تعلیم کی بندش کا فیصلہ واپس لیں۔