لاوا پک نہیں رہا، ابل رہا ہے۔ بہت دنوں کے بعد احتجاجی ہڑتالوں کے مناظر ضمیروں کو جھنجھوڑنے کا سامان پیدا کر رہے ہیں کہ ہم کہاں پہنچ چکے ہیں اور کس منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ عام پاکستانی کے وجود سے اٹھنے والی اذیت اور کرب کی وہ آواز ہے اب بات ان کے مسائل کی نہیں ان کے بقا کی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارا حماقتوں مفاد پرستانہ انداز اور ناانصافی پر مبنی نظام شکست کے دھانے پر کھڑا ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی نہیں جو علم ‘تجربے ‘ فراست اور باریکی سے مسئلے کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ سٹپٹائے ہوئے حکمران منہ کھولے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے اور حکمت سے مرض کی تشخیص اور علاج کے بجائے ہاتھ اٹھائے لڑنے سے پہلے سرنڈر کی تیاری کر رہے ہیں۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ دوسروں کی طرح نارمل انداز سے اپنے ملک کو کیوں نہیں چلا سکے۔ معاشی مشکلات اور چیلنج ہر ملک کی معیشت میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن وہ ایک حکمت عملی کے تحت جہاں ممکن ہوتا ہے عوام کو ریلیف دیتے رہے ہیں۔ اس سے معاشی سائیکل میں ایک توازن رہتا ہے۔ آمدن اور اخراجات کے اعشاریے متوازن رہتے ہیں۔ مجھے آئی ایم ایف کی ایک سرکردہ عہدیدار کی یہ بات یاد ہے جو انہوں نے حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران کہی کہ آئی ایم ایف کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ پاکستان کی حکومت اپنے نچلے اور متوسط طبقے کو ریلیف دے۔ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے امیر طبقے پر ٹیکس لگایا جائے اور ان سے وصول بھی کیا جائے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکس کا نظام ہمیشہ سے غیر متوازن اور ناکارہ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ فیوڈل سسٹم کی موجودگی ہے پاکستان ایک زرعی ملک رہا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہزاروں ایکڑ زمین کا مالک فیوڈل لارڈ کو ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے۔ یہ کروڑوں کماتا ہے ۔اسمبلیوں کے ایئر کنڈیشنڈ ہالوں میں آرام دہ کرسیوں پر جھولتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود پر لمبے چوڑے بھاشن دیتا ہے۔ لیکن ٹیکس نہیں دیتا۔حکومتوں کو اپنی ساکھ کے بل پر حقائق کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اگر ان کی اخلاقی ساکھ چلی جائے تو ان کا انصاف بھی ناانصافی کے ہم معنی ہو جاتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہر آنے والا حکمران اپنے پیشرو کو خرابی کی ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ عمران خان نے نواز شریف کو شہباز شریف نے عمران خاں کو اور اب چند ہفتے بعد وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی برملا کہنا شروع کر دیں گے کہ ان کو ملک سیاسی دھینگا مشتی کے بعد مسائل سے ہلکان ہوتی مملکت کی صورت میں ملا تھا آج صورتحال یہ ہے کہ خدشات امڈتے چلے آ رہے ہیں اور حالات سے آگاہی رکھنے والے اور ان چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے والوں پر کپکپاہٹ طاری ہے ظاہر ہے قومی سلامتی کا ضامن ادارہ ایسی صورتحال میں خود کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتا یہ بھی ہماری تاریخ کے چہرے پر جلی حروف میں لکھا ہے کہ پہلے 1977ء میں قومی سلامتی کے نام پر بھٹو کی حکومت چھینی گئی اور 1999ء میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت کے باوجود گھر بھیج دیا گیا۔ بھٹو اس اعتبار سے بدقسمت رہے کہ فیصلہ کن مرحلے پر شاہ فیصل اور چوائن لائی اس دنیا میں موجود نہیں تھے لیکن نواز شریف کو کسی ممکنہ خوفناک انجام سے بچانے کے لئے امریکی اور سعودی حکمران میدان میں آ گئے۔ جنرل باجوہ کے بعض من مانے فیصلوں اور خود اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے کی گئی کوششوں نے پاکستان کی سیاست میں پولرائزیشن کو انتہا پر پہنچا دیا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ عمران خاں نے اپنے اقتدار کی کشتی ڈوبتے دیکھ کر اپنی توپوں کا رخ اپنے محسن جنرل باجوہ کی طرف موڑ دیا۔ جنرل باجوہ کی رخصتی کے بعد فوج اس ارادے اور حکمت عملی کے تحت پیچھے ہٹ گئی کہ وطن عزیز میں سیاسی ہم آہنگی اور رواداری کی فضا پیدا ہو۔ اور جمہوری نظام حکومت ایک بار پھر آگے کا سفر طے کر سکے۔ لیکن اپنی انا کے حصار میں لپٹے اور مقبولیت کی مستی میں آگے بڑھتے عمران خاں یہ سمجھ ہی نہ پائے کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح ابراہم لنکن یا صلاح الدین ایوبی کی طرح خود کو کوئی تاریخ ساز شخصیت سمجھنے لگے۔ لیکن سچ پوچھیں تو ان میں نہ وہ علم تھا نہ تجربہ اور نہ ہی معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت۔آپ دیکھیں کہ ابتدائی دنوں میں جن لوگوں کے کندھوں پر پاکستان چلانے کی ذمہ داری تھی انہوں نے شاید یہ سوچا ہوا تھا کہ صرف مذہب ہی لوگوں کو ایک ساتھ جوڑ سکتا ہے اور جہاں ممکن ہو اسے استعمال کیا جائے۔ تعلیمی معاملات میں بھی اسے استعمال کیا جائے 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے ثابت کر دیا کہ مذہب جوڑے رکھنے کے لئے کافی نہیں۔ لیکن یہاں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ یہ نہیں دیکھیں گے کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں بلکہ وہ یہ دیکھیں گے کہ اسلامی معاشرے کی دولت کیا ہے۔ یہاں ہمیں اپنے اعمال اپنے کردار اور مروج نظام پر نظر ڈالنی ہو گی یہ درست ہے کہ ایک مذہبی ریاست کا نظام آج بھی پاکستان میں زندہ ہے۔ضیاء الحق کے ریاست مصطفی ؐ اور عمران خاں کی ریاست مدینہ کی تصویر ہم دیکھ چکے یہ صرف اپنے سیاسی فائدے کے لئے لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے لئے ہمارے لیڈروں کا ایک آسان مجرد نسخہ یا چورن ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں وقت کے ساتھ ساتھ خرابیاں‘ برائیاں اور جرائم پھیلنے کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں جزا اور سزا کا نظام ناکارہ ہو چکا ہے۔تعلیمی اداروں میں بچیوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں۔ رشوت دھونس دھاندلی رواج پا چکی ہے۔ کوئی جائز کام کسی منصفانہ اور سیدھے طریقے نہیں ہوتا۔ ہم ایک پر خطر راستے پر گامزن ہیں پھر سونے پر سہاگہ کہ ہم ایک معاشی دلدل میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ہمارا ریاستی نظام کاملاً بے لگام ہو چکا ہے۔ پاکستان سے پہلے سرمایہ اڑ کر جا رہا تھا۔ اب پاکستان کے ذہین افراد مایوسی کے عالم میں ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں اسٹاک ایکسچینج کی صورتحال‘ ڈالر کی اڑان اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں کے سبب مہنگائی کا وہ طوفان آ گیا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔اب ہم مسائل کی عمومی چٹان پر پہنچ گئے۔ رائے عامہ کو نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں ہو گی صورتحال کا جتنی جلد ادراک کر لیا جائے ۔بہتر ہو گا کوئی نہ کوئی راستہ تو ہو گا طاقتور ہی کوئی رعایت دیتا ہے توکل اور صبر بھی کوئی چیز ہے۔ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے کھلیان کی فکر آج ہی کرنی ہو گی ورنہ۔