انتخاب تھا، ہو گیا اور ہم دونوں، جی ہاں اس سارا دن میری اور امریکہ دونوں کی نظریں ان انتخابات پر رہیں۔ہم دونوں اپنی اندھی آنکھوں کو پوری طرح کھول کر ان انتخابات کا جائزہ لیتے رہے کہ انتخابات ٹھیک ہوں اور یہ انتخابات پاکستان کی حقیقی سیاسی قوتوں کی نمائندگی کرتے ہوں۔امریکی رکن کانگریس اور ہائوس کمیٹی برائے خارجہ امور کے سربراہ گریگوری ویلڈن میکس نے دو دن پہلے پاکستان کے متعلق ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھاکہ ہم 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں عوام کی دلچسپی کو دیکھ رہے ہیں۔تشدد کے خوف کے بغیر عوام کا اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کا حق کسی بھی جمہوریت کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے ان اہم انتخابات کے نتائج پاکستانی عوام کی مرضی کی عکاسی کریں گے۔اس خوبصورت بیان کو اگر سوچ سمجھ کر ایک دفعہ ہی پڑھ لیا جائے تو اندازہ ہو جاتا کہ یہ آنکھیں کس قدر اندھی اور کس قدر کھلی ہیں۔مسٹر ایکس نے یہ بات بھی بالکل ٹھیک ثابت ہوئی ہے کہ پولیس کی ساری پولیس گردی کے باوجود لوگوں میں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں۔وہ اپنا کام دلیری اور ہمت سے کر رہے ہیں ، عدالت کی طرف سے ایک پارٹی کو بے نشان کرنے کا بھی لوگوں پر کچھ اثر نہیں ہوا۔ لوگ پارٹی کے امیدوار اور اس کے نئے بے ڈھنگے نشان کو ڈھونڈھ کر اپنے ٹھپے ثبت کرتے رہے۔ اور بہت سی طاقتوں کے نہ چاہنے کے باوجود جس کو چاہا اسے جتایا۔ویسے یہ عالمی سیاست کا کمال ہے کہ بڑی طاقتیں صرف مفادات کی آنکھیں کھلی رکھتی ہیں باقی عام آنکھوں کو کھلنے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔جنوری کا مہینہ یونانی دیوتا جینس (janus) کے نام پر ہے جس کی خوبی یہ ہے کہ وہ آگے اور پیچھے دونوں طرف دیکھ سکتے ہے۔آج کے دور کا دیوتا امریکہ بھی یہی خوبی رکھتا ہے مگر بوقت ضرورت اگلی یا پچھلی کوئی بھی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میں اندھی آنکھیں کھول کر اس لئے دیکھتا ہوں کہ اندھی آنکھوں کے سپنے بڑے رنگین ہوتے ہیں اور انتخاب کے دور میں جتنے حسین اور خوبصورت سپنے ہماری سیاسی جماعتیں دکھاتی ہیں اس کا کوئی بدل ہی نہیں۔ان سپنوں کو صرف اندھی آنکھیں ہی دیکھ سکتی ہیں۔جذبات کی آنکھیں، خیالات کی آنکھیں۔ کمبخت اگر کھل جائیں تو سارے سپنے ٹوٹ جاتے ہیں۔ ویسے یہ اندھی آنکھیں کھلی ہوں یا بند اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ فیصلے اوپر سے ہوتے ہیں۔لگتا تھا کہ اﷲنے جن لوگوں کے مقدر میں اقتدار لکھ دیا ہے اسے کوئی نہیں بدل سکتا۔ یار لوگ بار بار لوگوں کو بتا تے رہے کہ اب انہیں حکم ہے کہ وہ اپنے کندھوں پر یہ بار اٹھا لیں، اس حکم کے نام پر وہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ بیوروکریسی اور پولیس ان کے غلاموں کا کردار ادا کرتی رہی۔آج وہ لوگ شاید شرمندہ ہوں کہ انہیں ان کے تکبر کی سزا یہ ملی کہ وہ بری طرح ہارے ہیں۔ ان میں اگر رتی بھر بھی شرم ہے ، ایسے لوگوں کے لئے آئندہ حالات سازگار نظر نہیں آتے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس ملک پر فقط حکمرانی کرنے کے لئے آنے والوں کو فوری ٹکٹ لے کر فوری اپنے اصلی وطن جانا ہو گا۔ بلاول نے انہیں ٹکٹ کی پیشکش کی تھی مگرْ اب بلاول کو ان کے لئے ٹکٹ خریدنے کا تکلف کرنے کی ضرورت نہیںہوگی۔ الیکشن کے دن ایک مشکل یہ تھی کہ گھر میں کوئی ملازم نہیں تھا۔ میرے ملازم صبح صبح آئے کہ وہ اپنے علاقے شاید حویلی لکھا یا کہیں اس کے ارد گرد ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں۔ میں نے کہاں کہ اچھی بات ہے کہ آپ کا شعور جاگا مگر اتنی دور جائو گے کیسے ۔ ہنس کر کہنے لگے کہ ہمارے علاقے کے امیدوار شاید شیر خان نام بتایا ،نے بیس ہزار بھیجے ہیں کہ ویگن کرائو اور ہم بارہ تیرہ لوگ اس ویگن میں وہاں جا رہے ہیں۔ دوپہر کا کھانا کھا کر واپس آ جائیں گے۔ میں نے مذاق میں پوچھا کہ یار کچھ نقد بھی ملا کہ بس خالی ہاتھ ہی اتنی بڑی خدمت انجام دو گے۔ کچھ شرمائے کہ ہم نے تو نہیں کہا تھا مگر خاں صاحب بڑے مہربان آدمی ہیں ،زبردستی ہر بندے کو پانچ ہزار ہمارے ایک رشتہ دار کے ہاتھ ہمیں بھیج دے دئیے ہیں۔ وہی بندہ ویگن بھی کرایہ پر لے کر آیا ہے ۔ بڑی اچھی بات ہے قوم کو یہ انڈسٹریل انتخاب بہت بہت مبارک ہو۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پرانے ورکرز کو گلا تھا کہ ان کی وہ اہمیت نہیں رہی جو جناب بھٹو اور محترمہ بے نظیر کے دور میں تھی۔ زرداری صاحب پیار محبت اور رواداری کے پیکر تھے۔ وہ نئے اور پرانے ورکرز کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کے خواہاں تھے اور وہ اسی پر عمل کرتے رہے۔ مگر بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے لاڈ پیار سے سیاسی پروان چڑھنے والے کارکن نئے کارکنوں کا اوپر سے نازل ہونا پسند نہ کرتے تھے اور اس جذبے سے کام نہ کرتے رہے کہ جو پارٹی کی ضرورت تھا۔یہ بلاول کا کمال ہے کہ اس نے ان کارکنوں کو ایک دفعہ پھر ویسے ہی پیار، محبت اور اپنائیت سے ہم کنار کیا ہے۔ لاہور کے پچھلے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی نے جو ووٹ لئے وہ نوے فیصد تحریک انصاف کے تھے مگر اس دفعہ گو بلاول ہارگئے مگر پارٹی کے نوجوانوں کو ایک تازہ جذبہ دے گئے۔پنجاب میں پارٹی کو اک نیا جنم دے گئے ۔امید ہے مستقبل میں پارٹی بہتر نتائج دے گی ۔بلاول نے جتنے بھی ووٹ لئے وہ خالصتاًًپارٹی کے ووٹ ہیں۔مگر بلاول نے چاروں صوبوں میں جو جاں گسل محنت کی ہے اس نے کارکنوں کے اندر ایک نئی حرارت دی ہے ۔ بلاول کے انداز سے لگتا ہے کہ مستقبل یقینا!ً بلاول کا ہے۔ علی جہانگیر بدر کو بلاول نے اپنے حلقے میں کمپین کا انچارج مقرر کیا تھا۔ میں داد دوں گا کہ علی اس کی والدہ اور عزیز و اقارب اس الیکشن کو ذاتی جان کر پوری دل جمعی سے لڑے اور پارٹی میں روح پھونکنے میں بلاول کے دست و بازو ثابت ہوئے۔انہوں نے دوسری نسل تک وفاداری کا بھرم رکھا اور امید ہے وہ اسی طرح پارٹی کی خدمت کرتے رہیں گے۔