ترقی لڑائی سے نہیں ،غور و فکر اور ترجیحات کے تعین سے ہوتی ۔حکومت پاکستان جس سمت چل کھڑی ہوئی ،وہ راستہ ترقی ،سرمایہ کاری اور بلندی کا۔ترقی یافتہ قومیں ہی اعتدال کی راہ پر آتی ہیں ۔انشا ء اللہ اہل پاکستان بھی ایک اعتدال کے راستے پر آئے گا ۔ قائدؒ اقبالؒ کے راستے پر ۔قائد ؒاقبالؒ جیسے لوگ مایوسیوں میں چراغ جلانے والے ۔ اب بھی کسی نے اس قوم کو مہنگائی ،بیرورگاری اورمایوسی کی دلدل سے نکالنے کے لیے کمر کس لی ؟جی ہاں ۔ان کی کاوشوں پر رشک آتا ۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کا دورہ ،ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا۔ سعودی وفد میں پانی اور زراعت ، صنعت، سرمایہ کاری ، توانائی اور سرمایہ کاری کے اعلیٰ عہدیداران بھی شامل تھے ۔جنہوں نے پاکستان کی مشکلات کم کرنے کافیصلہ کیا ۔9ارب ڈالر ،ادھار یا قرض نہیں بلکہ سرمایہ کاری ۔اس سے نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر مضبوط ہوں گے بلکہ بیرورنی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی بھی ہو گی ۔27 لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں مقیم ہیں ،سعودی معیشت میں ان کا کردار ریڑھ کی ہڈی جیسی۔ سعودی وفد واپس چلا گیا مگر امید نہیں ،ایک یقین پیچھے چھوڑ کر گیا ہے ۔ پاکستان کی معاشی مشکلات کے حل کے علاوہ وہ ساتھ کھڑا ہے۔پاکستانی دفتر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ ماضی میں سعودی عرب کے اس طرح اعلیٰ سطحی وفد کی پاکستان آمد کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ یہ دورہ اس بات کا بھی عکاس ہے کہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب کامیاب رہا۔اسی بنا پر ایک اعلیٰ سطحی وفدپاکستان آیا ۔ 9ارب ڈالر سرمایہ کاری کی بات چیت تو ایک عرصے سے چل رہی تھی مگر عملی طور ممکن نہ ہونے کی وجوہات تھیں ۔پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ۔دہشت گردی۔معاشی بحران ۔بیرونی قرضوں کا بڑھتابوجھ۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستانی بیورو کریسی میں کرپشن کی شکایت کی تھی۔بیوروکریسی کے ذریعے سعودی عرب اور عرب امارات نے سرمایہ کاری سے انکار کر دیا تھا ۔دونوں ملک25، 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے تھے ۔جس کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے گزشتہ دور حکومت میں ایس آئی ایف سی کے نام سے ایک ادارہ بنایا ۔اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل کی اعلیٰ ترین (ایپیکس) کمیٹی میں وزیر اعظم، چاروں وزرائے اعلیٰ اور چیف آف آرمی سٹاف شامل ہیں۔جبکہ کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی میں وفاقی اورصوبائی کابینہ کے اراکین، بیوروکریسی کے بعض سینئر افسران اور فوج کا نمائندہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایس آئی ایف سی کی تیسری کمیٹی عمل درآمد کمیٹی کہلاتی ہے، جس میں وزیر اعظم کے خصوصی معاون اور فوج کا افسر موجود ہے۔اس کونسل کے اغراض و مقاصد میںکئی شعبوں میں دوست ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔ جن میں دفاع، زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن اور توانائی کے شعبے شامل ہیں۔اسی مقصد کے لیے کونسل ’’سنگل ونڈو‘‘پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گی تاکہ ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے ملک میں کاروبار کرنے میں آسانی پیدا کی جاسکے۔ اس خصوصی کونسل کے تحت چولستان میں 50 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم، کینولا، باجرہ اور کپاس کی کاشت کا پروگرام ہے۔ اس مقصد کے لیے 37 ارب 55 کروڑ روپے کی رقم درکار ہوگی اور اس پروگرام کا مقصد ملک سے غذائی قلت کے خاتمے کو یقینی بنانا، ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنا اور درآمدی بل کم کرنا شامل ہے۔اسی طرح لائیو اسٹاک کے سیکٹر میں 20 ہزار جانوروں کی استعداد کے کارپوریٹ ڈیری فارم قائم کیے جانے ہیں، جس پر72 ارب روپے کا خرچہ آئے گا۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ فیڈلاٹ فارم کا قیام کرکے اس میں 30 ہزار جانور رکھے جائیں گے جو مقامی ضروریات کو پورا کرنے اور برآمد کرنے کے لیے15 ہزار ٹن گوشت سالانہ فراہم کرسکے گا۔ اس پروجیکٹ پر 58 ارب کے اخراجات آنے ہیں۔ اسی طرح کے الگ منصوبے میں 10 ہزار اونٹوں پر مشتمل کیمل فارم بھی قائم کیا جائے گا، جس پر لاگت 37 ارب 70 کروڑ روپے ہے اور یہ سالانہ 20 لاکھ لیٹر دودھ کے ساتھ 450 ٹن گوشت بھی فراہم کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں تانبے اور سونے کے ذخائر، خضدار میں سیسے اور جست (زنک) کی تلاش کے لیے لائسنس کے اجراء کے علاوہ تھرپارکر میں کول فیلڈ کی اپ گریڈیشن، گلگت بلتستان میں مختلف دھاتوں کے لیے کان کنی اور مائننگ مشینری کی اسمبلنگ کے لییپلانٹس کا قیام بھی اس منصوبے کے مقاصد میں شامل ہے۔ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے حکومت بیرونی سرمایہ کاروں، ٹیکس مراعات، درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی میں نرمی، منافع باہر منتقل کرنے، اسپیشل اکنامک زونز میں کام کرنے والوں کو دس سال تک انکم ٹیکس چھوٹ سمیت تنازعات کے حل کے لیے مختلف ضمانتیں وغیرہ دینے کو تیار دکھائی دیتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے قبل بھی چار مرتبہ اسی طرز پر خصوصی کونسل بنائی گئی تھی ۔مگر نتیجہ صفر جمع صفر جمع صفر ۔اب کیا ہو گا ؟ اس کے بارے میں کچھ کہنا از قبل ازوقت ہے ۔وزیر اعظم ذاتی دلچسپی سے اسے کامیاب بنا سکتے ہیں ۔اس بار حکومت پاکستان نے بیرونی سرمایہ کاری پرکشش بنانے کے لیے سعودی سرمایہ کاروں کو 14سے 50 فیصد تک منافع اور اس کی بلارکاوٹ کی منتقلی کی یقین کر ائی ہے۔ منصوبے کی نوعیت کے مطابق وہ 3سے 9 سال کے عرصہ میں اپنا سرمایہ واپس اپنے ملک منتقل کر سکیں گے۔سعودیہ کی واحد تشویش منافعوں کی منتقلی تھی،وہ بھی حل ہو گئی۔