1860ء میں ایک فرانسیسی سیاح کمبوڈیا کے شہر سیم ریپ میں آ نکلا اور اس نے وہاں گھنے جنگلوں میں نیم پوشیدہ ایک عظیم معبد کو دیکھا، جسے مقامی لوگ انگ کور واٹ کہتے تھے۔ ہنری موہاٹ اس کی کھنڈر ہوتی شانداری کو دیکھ کر گنگ رہ گیا۔ وطن واپسی پر اس نے ان خطوں کا ایک سفر نامہ تحریر کیا جس کا نام ’’1860ء میں سیام کمبوڈیا اور لائوس کے سفر‘‘ تھا۔ موہاٹ نے انگ کور واٹ کو بیان کرتے ہوئے کسی حد تک مبالغے سے کام لیا ہے لیکن وہ سیاح ہی کیا جو کسی منظر یا عمارت سے متاثر ہو جائے اور مبالغے سے کام نہ لے۔ دراصل سفر نامہ لکھتے ہوئے ہمیشہ حقیقت اور خوابناک مبالغے کا ملاپ ہو جاتا ہے۔ ہنری موہاٹ نے لکھا! کمبوڈیا کے ہندو مندروں میں سے ایک مندر معبد سلیمانی کے مدمقابل ہے۔ کسی قدیم مائیکل انجلوکے ہاتھوں کا تراشا ہوا، دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں شامل ہوتا ہوا۔ یونان اور روم کی تہذیب سے کہیں بڑھ کر شاندار عظمت رکھنے والا۔ انسانوں کا نہیں جنات کا تعمیر کردہ لگتا ہے۔ جن لوگوں نے یہ مندر نہیں دیکھا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اس کی تعمیر میں کتنا تحمل، کتنی دانش اور کتنی قوت استعمال کی گئی ۔ہم ویت نام کو خدا حافظ یا ہوچی منہہ حافظ کہہ کر کمبوڈیا چلے آئے تھے۔ اس شہرہ آفاق ہندو مندر کو دیکھنے کے لیے، جسے اس برس سیاحوں کی بائبل’’لونلی پلینٹ‘‘ نے دنیا کی سب سے زیادہ پرکشش عمارت قرار دیا ہے ۔ جس کی تعمیر میں اہرام مصر سے زیادہ بھاری پتھر استعمال ہوئے تھے۔ ویت نام تو ہم سیر کے لیے اور اپنے دو پانڈا پوتوں کے لیے چلے آئے تھے لیکن کمبوڈیا تو ہماری کسی سفری کتاب میں نہ لکھا تھا تو یہاں کیسے چلے آئے۔ دراصل ہماری آمد سے کچھ روز پیشتر سمیراپنے ایک دوست کے ہمراہ کمبوڈیا اور لائوس میں آوارہ گردی کرنے گیا تھا، جہاں وہ انگ کور واٹ کا مندر دیکھ کر ایک ناقابل یقین حیرت میں چلا گیا۔ چونکہ وہ خود ایک آرکی ٹیکٹ ہے، اس لیے جانتا ہے کہ ایک عمارت کیسے تعمیر کی جاتی ہے اور انگ کور واٹ اس کے لیے ایک معمہ تھا کہ آخر اسے کیسے اور کن عظیم لوگوں نے ایک ہزار برس پیشتر تعمیر کیا۔وہ ایک الجھن میں تھا کہ نہ صرف انگ کور واٹ بلکہ اس کے آس پاس جو درجنوں قدیم مندروں کے شہر تھے وہ ہندوئوں نے تعمیر کئے تھے۔ الجھن یہ تھی کہ ہماری کتابوں میں نصابوں میں اور تاریخوں میں ہندو تو بہت برے ‘ نالائق اور قابل نفرت لوگ تھے تو انہوں نے کیسے یہ عجوبہ روزگار معبد تعمیر کیے، جو اہرام مصر کی ہم سری کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے اسے ایک مختصر سا لیکچر دیا کہ دراصل ہندوئوں کو برا کہنا ہماری ایک تاریخی اور سیاسی مجبوری ہے۔ یوں ہمارے بیانیے کو تقویت ملتی ہے۔ ورنہ ہمارے خطوں میں تہذیب‘ دانش اور آگاہی کا آغاز دو بڑی تہذیبوں کی دین ہے۔ ایک ہندوستانی اور دوسری چینی۔ قدیم ہندوستان نے فلکیات ‘ طبیعات ‘ فلسفے ‘ ادب اور جہاں بانی کے اصول وضع کئے۔ یہاں تک کہ کاما سترا میں جنس کے جتنے انداز بیان کئے گئے ان میں آج تک کسی ایک اور انداز کا اضافہ نہیں ہو سکا۔ اس طرح ہندوستانی تہذیب مغرب کی جانب نہیں مشرق کی جانب پھیلی اور ان زمانوں میں مشرق کے بیشتر باسی ہندو مذہب سے متعلق تھے جن میں کمبوڈیا لائوس اور ویت نام کے کچھ حصے تھے یہاں تک کہ تقریباً پورا انڈونیشیا ہندو مت کا پیرو کار تھا۔ آج بھی جاوا سماٹرا اور خاص طور پر بالی جزیرے کے لوگ ہندو ہیں اور ہم اس خیال میں ہیں کہ ہندو لوگ سمندر پار نہیں جاتے۔ ہم نے آج تک کمبوڈیا تو کیا صرف ہندوستان میں ہزاروں برس پیشتر تعمیر کردہ معبدوں کی حیرت ناک درجنوں عمارتوں پر غور نہیں کیا یعنی صرف ایک بہت بڑی چٹان میں سے تراشا ہوا کالاش مندر۔ آج تک یہ عقدہ نہیں کھلا کہ یہ کیسے تراشا گیا۔ دراصل ہم آج کے ہندو دیکھتے ہیں۔ مودی ایسے موذی ہندو دیکھتے ہیں۔ جیسے یونان کی عظیم تہذیب دیکھئے اور آج کے یونانیوں کو دیکھئے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ دیوتائوں کی اولاد ہیں۔ آج کے اطالوی لوگوں کو دیکھ کر کیسے یقین کریں گے کہ یہ سلطنت روم کی عظمت کے وارث ہیں، وارث نہیں، کچرا ہیں۔ اسی طور آج کا ہندو دیکھ کر مت پرکھئے کہ کبھی یہ بھی خوبصورت تھے۔ دور کیا جانا آج کے مسلمانوں کو دیکھ کر شک بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے تھے۔ یورپ کی تاریکی میں اندلس کی شمع روشن کی تھی۔یہ تاج محل تعمیر کرنے والے تھے۔؟ ابھی سیم ریپ کی شب کی تاریکی رخصت ہو جانے کے لیے اپنے سیاہ کالے جادو کے منتروں سے بھیگے ہوئے پروں کو کھول رہی تھی۔ اس نیم سیاہ سلطنت میں سینکڑوں سیاح دبے پائوں چلے جا رہے تھے جیسے راہب خانوں کے بھکشو مؤدب ننگے پائوں چلے جاتے ہیں۔ سڑکوں پر کمبوڈیا کے رکشے جو ’’ٹک ٹک‘‘ کہلاتے ہیں سیاحوں سے بھرے ہوئے ایک ہی جانب ٹک ٹک کرتے چلے جا رہے ہیں اور یہ سب انگ کور واٹ مندر پر طلوع آفتاب کا منظر دیکھنے چلے جا رہے ہیں۔ اگروہ چلے جا رہے تھے تو میں اور میمونہ بھی اپنی کرائے کی لینڈ کروزر کی ٹھنڈک میں قید چلے جا رہے تھے۔ ہم پچھلی شب سیم ریپ کے شرابی بازار یعنی ’’پب مارکیٹ‘‘ میں دیر تک گھومنے اور کھانے پینے کے بعد بہت تھک چکے تھے اور اس کے باوجود منہ اندھیرے بیدار ہو گئے کہ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، انسانی ہاتھوں کے تعمیر کردہ سب سے بڑے معبد پر ابھرتے سورج کو دیکھیں گے۔ انگ کور واٹ کے برج اور مینار ابھی تک رات میں گم تھے۔ ہم بھی دیگر سیاحوں کی پیروی کرتے ہوئے اس کے دامن میں پھیلے کنول تالاب کے کناروں تک پہنچے اور منتظر ہو گئے۔ دنیا کی سب سے پُر افسوں قدیم عمارت پر آفتاب ابھرنے کے انتظار میں کبھی کھڑے ہو گئے اور کبھی بیٹھ گئے خاموشی اتنی تھی کہ تاریکی میں گھسے ہوئے تالاب کے پانیوں پر کہیں کہیں جب کوئی کنول کھلتا تھا تو اس کی چٹخ کی مدھم آواز بھی سنائی دے جاتی تھی۔ اگر ہم آفتاب نہیں ماہتاب ابھرنے کے منتظر ہوتے تو فیض ہمارے انتظار کی ترجمانی کر دیتے ؎ آج تنہائی کسی ہمدم دیریں کی طرح کرنے آئی ہے میری ساقی گری شام ڈھلے منتظر ہیں ہم دونوں کہ ماہتاب ابھرے اور جھلکنے لگے تیرا عکس ہر سائے تلے تالاب کے کناروں پر ایک ہجوم عاشقاں منتظر تھا کہ کب آفتاب ابھرے اور انگ کور واٹ کا عکس اس تالاب میں جھلکنے لگے۔ میرے عین آگے کھڑی ایک جاپانی لڑکی نے سر جھٹک کر اپنے بال کھول دیے اور اس کے بال اتنے قریب تھے کہ وہ زلفیں میرے چہرے پر پریشاں ہو بھی سکتی تھیں۔ مجھے ان میں سے ایک عورت کی خوشبو آئی۔ سینٹ آف اے وومن۔ میمونہ نہایت شانت حالت میں تالاب کے کناروں پر آلتی پالتی مارے بے خبر بیٹھی تھی کہ اس کا شوہر نامدار اس عمر میں بھی جانے حرص کے کن خیالوں میں ایک نسوانی مہک سے مسحور ہوتا ہے اور تب وہاں بائبل کے آغاز کا منظر کھلا۔ کہ ابتدا میں پانیوں پر ایک دھند تیرتی تھی ہر سو تاریکی تھی‘ تب اس نے کہا کہ روشنی ہو جا اور ہر سو روشنی ہو گئی۔ یوں جیسے ایک منتر پھونک دیا گیا ہو۔ انگ کور واٹ کے کائی زدہ سیاہ نیم کھنڈروں کے پہلو میں سے روشنی کے زرد تیر نمودار ہوئے اور ہم سب کو گھائل کر دیا۔نابینا یونانی شاعر ہومر نے یونانی دیو مالا کے سمندروں پر طلوع ہوتی صبح کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ، کب سورج اپنی سنہری رتھ پر سوار ہو کر آیا اور اس نے اپنی کرنوں کے سنہری تیر چلائے ۔انگ کور واٹ مندر کے پہلو میں سے جو آفتاب ابھرا اس نے بس ہم پر اپنے سنہری تیر چلا کر گھائل کر دیا۔ انگ کور واٹ کے بام و در تاریکی میں سے ابھرنے لگے، نمایاں ہوتے گئے۔ کیا یہ ایک ایسا طلوع آفتاب تھا جس کی مثال دنیا بھر میں نہ ملتی تھی۔ ایسا نہیں تھا مجھے ہرات‘ یارقند ‘ سنو لیک، کے ٹو اور فیری میڈو کے ابھرتے آفتاب یاد آتے تھے، بے شک یہ انگ کور واٹ تھا۔ ہیکل سلمانی کا ہم سر ‘ اہرام مصر کا رقیب۔ دنیا کا سب سے بڑا معبد۔ بے شک سحر انگیز تھا پر جو آفتاب گئے زمانوں میں دریائے سندھ کے پانیوں پر طلوع ہوا تھا جب کہ ان میں نابینا ڈولفن ابھرتی تھیں۔ یہ انگ کور واٹ کا چڑھتا سورج اس کے مقابلے میں ہیچ در ہیچ۔ سندھ کا آبی معبد۔ انگ کور واٹ کی سویر کو بہا لے جاتا تھا۔