ہر بْت کے مقدر میں، آخر ٹوٹنا لکھا ہے! انسان کی فطرت، آزاد روی اور غلامی کی ضِدوں سے عبارت ہے۔ غلامی کی ہر زنجیر، یہ توڑنا چاہتا ہے، لیکن اس سے زیادہ، بْتوں پر ایمان لاتا جاتا ہے! لات و عزیٰ ٹوٹ چکے، مگر تاریخ شاہد ہے کہ ان کے سوا بھی، بے شمار بْت ’’تراشیدم، پرستیدم، شکستم‘‘ کے مراحل سے گزرتے آ رہے ہیں۔ کبھی کہا گیا تھا کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے، اسے قبول نہ کرو۔ اس سے آگے یہ بتایا گیا کہ ہر نظریے کو پہلے رد کرو، پھر عقل کی کسوٹی پر کَسو! فرد معاشرے کی فکر کرے، یا معاشرہ فرد کی؟ آدمی اکائی ہے یا کْل؟ اس بھول بھلیاں نے، انسان کو کہیں کا نہ رکھا۔ یہ بْت ٹوٹتے جاتے ہیں اور حقیقت اپنی جگہ قائم ہے۔ ؎ صدیوں فلاسفی کی چْناں اور چْنیں رہی لیکن خدا کی بات جہاں تھی وہیں رہی! بھانت بھانت کے اِزموں کا جو حال ہوا، وہ ہمارے سامنے ہے۔ کتنے ہی نظریوں کیساتھ، ’’پرستی‘‘ کا لاحقہ لگا ہوا بھی، ہم نے دیکھ لیا۔ تاریخ ان سارے اِزموں اور پرستیوں کا، مدفن ہے! ’’نامعلوم کا خوف‘‘ کہیے یا ’’نامعلوم کی جستجو‘‘، فلسفیوں کو یہ، ایک کے بعد دوسرے نامعلوم ہی کی طرف ہانکتی ہے! ایک پستی سے دوسری پستی تک کا سفر! اور کیوںنہ ہو؟ ع تن تْرا، در حبس ِآب و گِل کشد جسم کے ساتھ روح پر بھی غور کیا گیا کہ ع یہ کیا شے ہے، جو چَمکی جان بن کر؟ نتیجہ؟ ذہن ِانسان کی درماندگی، کھْلتی جاتی ہے لیکن دعویٰ یہ کہ عقدہ کشائی ہو رہی ہے! عقل کی استعداد محدود اور کائنات کا علم لا محدود! پھر ذرا سے ظرف میں، لا انتہا کی سمائی، کیسے ممکن ہے؟ ع ذہن میں جو گھِر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا جو سمجھ میں آ گیا پھر وہ خْدا کیوں کر ہوا اس کے باوجود طرہ یہ کہ بہ خرد راہ ِعشق می پوئی بہ چراغ آفتاب می جوئی اور زعم کہ ہم کائنات کی اصلیت تک اب پہنچے کہ تب پہنچے! اپنی ہی عقل کو خْدا سمجھے بے وقوفی اسی کو کہتے ہیں خواص کے بنائے ہوئے بْت، خواص کے ہاتھوں ٹوٹتے آئے ہیں۔ لیکن عوام کی صنم تراشی؟ الامان و الحفیظ! اس سے عامیانہ شے کے سوا، کسی اور شے کی توقع ہونی بھی نہیں چاہیے۔ رائے عامہ جیسی چلتی ہوئی چیز، اَور کیا ہو گی؟ اسے ہموار کرنا، سطحی کام تو ہے ہی، مگر حیرت ہوتی ہے کہ یہ کتنی سہولت سے کیا جاتا ہے! کیسے ہنگامہ پرور شب و روز تھے، جب ڈونلڈ ٹرمپ، ریپبلکن جماعت کا صدارتی امیدوار بننے کے لیے کوشاں تھے۔ کتنی آسانی سے اس ریس کا پچھڑا ہوا گھوڑا سب کو پچھاڑ گیا! اتنی تربیت اور ترقی یافتہ قوم نے یہ انتخاب کیسے کر لیا؟ امریکن، جفاکش اور محنتی لوگ ہیں۔ ان کی بڑی تعداد آج بھی سیدھے اور سادہ لوح عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ امت ِعیسوی کو چلنا اس پیغام پر تھا کہ گال پر اگر کوئی طمانچہ رسید کرے تو دوسرا گال بھی پیش کر دو! نفرت کو محبت سے زیر کرو! لیکن ہوا کیا؟ یہیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ محبت اور نفرت میں سے، زیادہ طاقتور کون ہوا؟ محبت؟ جس کے بارے میں مولاناے روم کہتے ہیں ؎ از محبت نار نْوری می شود وز محبت دیو حْوری می شود یا نفرت؟ جس کا شاخسانہ یہ ہے کہ حضرت ِآدم کی اولین اولاد ہی قتل کر دی گئی تھی؟ یقین ہے کہ آخری فتح محبت کی ہو گی۔ لیکن اس سے پہلے، کیا نفرت ہی جیتتی رہے گی؟ چند روز قبل امریکن کانگرس میں مسلمان خواتین بھی پہلی بار ممبر منتخب ہوئیں۔ ان کی جیت پر بڑی خوشیاں منائی گئیں۔ لوگ اسے رواداری اور بھائی چارے کی مثال قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ جیت محبت کی ہے یا نفرت کی؟ کیا یہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے سپورٹرز کے خلاف نفرت ہی کا اظہار نہیں ہے؟ اور کیوں یہ تاریخ باراک اوباما کے دور میں نہ رقم ہو سکی؟ یہ نفرت کے جواب میں، نفرت ہی ہے۔ جارج بش جونیئر کی شرانگیز پالیسیوں کا رد ِعمل، پہلی مرتبہ ایک سیاہ فام صدر کی شکل میں سامنے آیا تھا۔ اوباما سے نفرت کا نتیجہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ ٹرمپ کی تازہ شکست بھی تشویش میں مبتلا کرتی ہے۔ اس لیے کہ ان کے بعد آنے والا ٹرمپ، ان سے ’’زیادہ بڑا ٹرمپ‘‘ ہو گا! محبت پیش قدمی کرتی ہے تو اس کا اظہار اچھے دنوں میں ہوتا ہے۔ یہاں معاملہ تْرکی بہ تْرکی کا ہے! نفرت کا لاوا، امریکہ میں پچھلے اٹھارہ سال سے پک رہا ہے۔ اس کی کھولَن دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہے۔ یہاں کے رہنما مفاد ِعامہ کی فکر کم کرتے ہیں۔ رائے عامہ کے البتہ مارے ہوئے ہیں! کاروبار ِحکومت بند ہوے ڈھائی ہفتے ہو گئے۔ اسی ایک واقعے سے ثابت ہو جاتا ہے کہ دونوں جماعتوں کو زیادہ دلچسپی عوام کی فلاح کے بجائے، ان کے ووٹ لینے سے ہے! انہیں آج پتا چلے کہ اپنے موقف سے پسپائی، انہیں زیادہ مقبول بنائے گی، تو یہ فورا پیچھے ہٹ جائیں۔ تعجب ہے کہ ان کے حمایتی، آج بھی ان کے کھونٹوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ رہے ڈونلڈ ٹرمپ، تو اپنے سب سے بڑے پجاری، یہ آپ ہیں۔ ہمالیہ سے اونچی اَنَا اور دعوے عوام کی خدمت کے! شاعر نے جسے ’’پندار کا صنم خانہ‘‘ کہا ہے، دراصل ایسی ہی ’’خْود پرستی‘‘ کا مقام ہے۔ اور خود پرستی کا صنم خانہ آباد کرنے والے پھر اسے ویران نہیں ہونے دیتے! دنیا کو آخرت سمجھ لینے والوں کی ساری دوڑ، ایک صنم خانے سے دوسرے صنم خانے تک ہے! اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ گروہ ع دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے!