ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں جولائی تا دسمبر کی پہلی ششماہی کے دوران نگران حکومت نے2407ارب روپے کے نئے قرضے لئے ہیں۔ جن میں سے 537.631ارب روپے مالیت کے قرضے جولائی تا ستمبر پہلی سہ ماہی کے دوران لیے گئے۔ نگران دور میں لیے گئے ملکی و غیر ملکی قرضے لیے جانے کے بعد پاکستان پر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ کر 40606 ارب روپے اور غیر ملکی قرضوں کی مالیت 24ہزار 674ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔ یہ قرض جو 30جون 2023ء تک 62ہزار 880روپے تھا رواں سال 31دسمبر تک بڑھ کر 65ہزار 285 ارب ہو گیا۔نگران حکومت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی منتخب حکومت کے مقابلہ میں د ستیاب وسائل میں رہ کرکفایت شعاری کے ساتھ اخراجات کر ے گی لیکن ایک محدود عرصہ میںقرضے لینے کا نیا ریکارڈ قائم کر کے قوم پر قرضوں کا بوجھ سوا کردیا گیا۔یقینا کچھ رقم قرضوں کی واپسی پر خرچ کی گئی لیکن کفایت شعاری سے کچھ بچت کی جا سکتی تھی۔ بقول کسے ۔۔اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کی ہر حکومت خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو تو قرضوں کے بغیر نہیں چل سکتی۔ ملک نہ اترنے والے قرضوں کے بوجھ تلے جکڑا جا رہا ہے۔ آنے والی حکومتوں کو بھی اس کے نتائج بھگتنے ہونگے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرضوں کے بوجھ ہلکا کرنے اور ادائیگیوں کے لیے پیداواری منصوبے بھی شروع کیے جائیں۔ محض قر ضے پہ قرضے لینے اور عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنے سے معاشی مسائل حل نہیں ہو نگے۔