ھکومتی ڈھانچہ بس اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ۔ وہ جو بظاہر ہار گئے تھے، وہ جیت گئے ہیں اور جو جیت گئے تھے وہ صاف ہار گئے ہیں۔ سیاست میں اخلاقیات انسان کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے اس لئے اس سے جو بھی اخلاقیات سے نجات پا جاتا ہے وہ کامران ٹھہر تا ہے۔ یہ بات جاننے والے اب حکمران ہیں۔انہوں نے ڈھانچہ مکمل کر لیا ہے مگر ڈھانچہ تو ڈھانچہ ہوتا ہے ، زمانے کی دست برد سے اسے بچانے کے لئے بڑی محنت اور تگ و دو درکار ہوتی ہے پھر بھی ڈھانچے کا اعتبار نہیں ہوتا۔وزیر اور مشیر بننے کے لئے کئی جاں نثار اچکنیں سلوائے بیٹھے ہیں۔ بس سازگار حالات اور ڈھانچہ وارثوں کی نظر کرم درکار ہے۔مجھے تو اس سارے حکمران گروہ میں کوئی ایک ایسا نظر نہیں آتا کہ جو سچ کہہ دے، حق قبول کر لے۔ کسی بزرگ نے کہا تھا کہ سیاست بڑی سفاک ہوتی ہے ۔آج اس کا عملی مظاہرہ نظر آ رہا ہے۔ کسی ملک کی عدلیہ اس کی بقا کی امین ہوتی ہے اگر انصاف کا عملی کام کرے ،یہاں تو سب کچھ درشنی ہے ۔ فیصلے عوام کی خوشی کے لئے نہیں ہوتے مگر عوام سے قبولیت ضرور پاتے ہیں ۔ فیصلوں سے د ھڑے بندی کی مہک آتی ہے۔کیس لگنے سے پہلے سوشل میڈیا کے نجومی بتا دیتے ہیں کہ فیصلہ کیا آئے گا۔ یہ چیز باعث افسوس ہی نہیں قوم کے لئے باعث شرمندگی بھی ہے اگر محسوس کیا جائے۔مگر اس تکلف میں کون پڑتا ہے۔ ہمارے لیڈر الیکشن کو کسی طرح جعلی انداز میں جیتنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کامیاب کہہ دیا جائے تو باقی اﷲاﷲ۔ یہاں ایک شخص جیت کر بھی ہار جاتا ہے اور کوئی دوسرا ہار کر بھی جیت جاتا ہے آپ ایک جعلی کاغذ کے بل بوتے پر کامیاب ہیںمگر جو ووٹوں میں کامیاب ہے اس کے پاس آر او کا جاری کردہ کامیابی کا سرٹیفیکیٹ نہیں۔ اس کے مقدر میں چار پانچ سال کی عدالت کی پیشیاں ہیں ۔ جعلسازی سے ڈسے عدالتوں کے پھیرے لگائیں گے مگر ہماری عدالتیں انصاف دینے سے معذور نظر آئیں گی۔ وہ جعلساز جو فریب سے جیت گیا ہے تمام فوائد سے بہرہ ور ہو گا۔وہ وزیر بن کر اپنی جعلسازی کو بھی تحفظ دے گا۔ ہر بڑے عہدے کا طلبگار ہو گا۔وہ اِخلاق اور وہ اخلاقی قدریں جو ہم اپنے لیڈروں میں دیکھنا چاہتے ہیں اور جو ہونی بھی ضروری ہیں، سب دفن ہو جاہیں گی۔ شاید اسی کا نام بندر بانٹ ہے۔ ماشا اﷲاب پنجاب اور مرکز دونوں جگہ جمہوری حکومتیں ہیں اور جمہوریت نام ہے اس لاٹھی کا جو سب کو ہانک رہی ہے۔جمہو ریت نام ہے اس ڈھٹائی کا کہ جس کو ہیرا پھیری پر کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ جمہور یت نام ہے اس اقلیت کا جو کسی نہ کسی طرح اقتدار پر قابض ہو چکی اور اب دعوے دار ہے کہ اس کا مقصد اقتدار نہیں ،لیکن کیا کریں کہ موجودہ معاشی حالات ان سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ ملک کی خدمت کا بیڑہ اٹھا لیں، اس ملک کو مشکل سے نکالیں۔ان کا تقاضہ ہے کہ لڑائی جھگڑے کی بجائے صلح صفائی سے جو ہو کام کر لیں۔جو فراڈ ہو چکا اسے سب من و عن تسلیم کر لیں،یہی جمہوریت کا تقاضہ ہے۔بہر حال یہی جو سب نظر آرہا ہے اسے ہی جمہوریت جان کر سب کو مجبوری میں ماننی ہو گی۔اتنا کچھ ہو چکا ہے جس کا واپس ہونا اب ممکن نہیں، مگر اس سے نفرت کی جودیوار اپنے قد میں مزید اضافہ کرتی جا رہی ہے اس کا کیا بنے گا، اس دیوار کو کوئی نہیں دیکھتا ، افراد سدا نہیں رہتے ،انہیں کچھ دیر میں جانا ہوتا ہے، ان کے اقدامات کا اثر سدا رہتا ہے۔ تاریخ بھی سدا رہتی ہے اور ان کے مقام کا تعین کرتی ہے۔وقتی طور پر لوگ چپ رہتے ہیں ، کوئی سننے والا ہو تو اس چپ میں بھی لوگوں کی آہ و فغاں صاف سمجھ آ رہی ہوتی ہے۔کہتے ہیں سہاگن وہی ہوتی ہے جسے پیا چاہے۔ یہ ملک جس پیا کا محتاج بن کے رہ گیا ہے وہ پیا جس کوچاہ رہے ہیں ، وہی حکمران ہیں۔کاش لوگ جان جائیں کہ تاریخ ان کے ساتھ کیا سلوک کرنے جا رہی ہے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں مگر کیا کیا جائے کہ تاریخ کا بہترین سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی نہیں سیکھتا۔ اسے ایک خاص انجام سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہے ۔ جو ماحول ہے وہ کوئی اچھا نہیں ۔جعلسازی سے اسمبلیاں کہاں چلتی ہیں۔ جو تقریریں ہو رہی ہیں وہ ہر حقیقت بے نقاب کر رہی ہیں مگر پارلیمنٹ کی بے بسی بھی ظاہر ہو رہی ہے۔پارلیمنٹ میں اگر لوگوں کی صحیح نمائندگی ہوتی تو شاید صورت حال بڑی مختلف ہوتی۔ جو کرپٹ ہیں وہ گھر جانے کی تیاری کر رہے ہوتے۔ مگر اب تو ان کا اپنا راج ہے۔میں ایک لیڈر کا بہت احترام کرتا تھا کہ میرے خیال میں وہ ایک بڑا لیڈر ہے۔ مگر یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ہارا ہوا ہے ، اس نے کوئی شرم محسوس نہیں کی اور ڈھٹائی سے اسمبلی میں موجود ہے۔ افراد کا کردار ہی ان کے اداروں کو عزت بخشتا ہے۔ افسوس ہماری عدلیہ ہو کہ مقننہ سب نے اپنا وقار خود گنوایا ہے ۔ یہاں موجود لوگ بڑے اور معاشرے کے باعزت لوگ ہوتے ہیں مگر اس دفعہ جو لوگ آئے ہیں وہ تو بڑے ہلکے ثابت ہو رہے ہیں۔کسی میں سچ کہنے کا حوصلہ نہیں۔ایسے بے حوصلہ لوگ تو نمائندگی کے قابل نہیں ہوتے۔ لوگ انصاف کے حصول کے لئے عدلیہ سے رجوع کرتے ہیں کہانیاں سننے کے لئے نہیں۔ کوئی کچھ کہہ دے تو اسے سبق سکھانے کی کوشش ہوتی ہے۔ عدلیہ کا اثر تبھی ہوتا ہے جب کسی کو انصاف ملے ۔ جن ججوں نے انصاف کیا۔ لوگوں کے ساتھ بھی اور اس طرح انہوں نے انصاف کیا اپنی ذات سے بھی۔یاد تو لوگ سبھی کو کرتے ہیں،جسٹس مولوی تمیز الدین کو بھی، جسٹس منیر کو بھی اور جسٹس کارنیلیس کو بھی مگر یاد کرنے کا انداز جدا جدا ہے۔اچھے فیصلے اور بغیر دیر کئے فیصلے قوموں کے مستقبل پر اچھا اثر ڈالتے ہیں۔