کرکٹ میچ سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔پہلے کہیں پڑھا تھا کہ کسی کا اچھا کھیل دیکھنے سے بہتر ہے کہ برا کھیل خود کھیل لیا جائے۔ کوئی بھی کھیل جو گھنٹوں آپ کسی سکرین کے سامنے بیٹھ کر دوسروں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں اس سے بہتر ہے کہ آپ خود کسی سرگرمی اور کسی ایکٹیوٹی میں مصروف ہو جائیں۔ پاکستانیوں میں کرکٹ ایک ایسا کریز ہے جس میں لوگ گھنٹوں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر صرف اپنا وقت ہی ضائع نہیں کرتے قیمتی احساسات اور جذبات بھی اس چیز پر ضائع کر دیتے ہیں جس کا حاصل حصول کچھ نہیں۔زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح یہ کھیل بھی زوال کا شکار ہے۔ کرکٹ میں کئی قسم کے بیرونی عناصر ایسے شامل ہوئے جو کھلاڑیوں کی اصل کارکردگی پر حاوی ہونے لگے اور کرکٹ سے دیانتدارانہ کھیل کاخاتمہ ہو گیا۔سوشل میڈیا کا فائدہ کہیں یا نقصان کہ ان چیزوں کے بارے میں بھی آپ کو کچھ نہ کچھ پتہ چلتا رہتا ہے جس میں آپ کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ پاکستان نے حال ہی میں افغانستان سے میچ ہارا ہے۔سنا ہے بہت ہی بری کارکردگی رہی۔ عالمی منظر نامے پر فلسطین کی صورت حال میں دل بہت آزردہ ہے ۔ ایسے میں تسلی سی ہوئی کہ پاکستان میچ جیت نہیں پایا۔کیونکہ میچ جیتنے کے نتیجے میں ہمارے بے حس اور بے سمت الیکٹرانک میڈیا نے جس طرح سے اس کو سیلیبریٹ کرنا تھا وہ اس ماحول میں بہت ہی نامناسب ہوتا۔ ایک ایسے وقت میں جب فلسطین پر قیامت ٹوٹی ہوئی ہے، فلسطینی بچوں پر ظلم ڈھا یا جارہا ہے، ستاون اسلامی ملکوں کی حکومتیں خاموش بیٹھی ہیں۔ تکلیف بے بسی اور کرب کے اس کڑے وقت میں اگر پاکستان افغانستان سے میچ جیت جاتا تو بے سمت پاکستانی خوشیوں کے شادیانے بجا تے ہوئے ذرا نہ جھجکتے۔ ذرا سوچیں جو وقت فلسطین پر بیت رہی ہے کل خدانخواستہ ہم پر بھی وارد ہو سکتی ہے۔ اگر ہم عملی طور پر ان کیلیے کچھ نہیں کر سکتے تو ان کے درد کو تو محسوس کر سکتے ہیں۔ خدا کے لیے ایسے انسان نہ بنیں جو درد اور حساسیت سے عاری ہو۔ رہی بات کرکٹ میچ ہارنے کی تو یہ ایک ایسی علامتی ہار ہے جس کے تناظر میں ہم اپنی زندگیوں میں جھانک کر اس ہار کو دیکھ سکتے ہیں جو ہر میدان میں ہمارا مقدر ہو چکی ہے کیونکہ ہم بے سمت لوگ ہیں۔ ہماری کوئی سوچ ہے نہ شناخت ہے۔ فلسطین کے وہ مسلمان بچے جو بیت المقدس کی خاطر اپنی جانیں دے رہے ہیں ان کے ایمان اور شعور کا اندازہ لگائیں کہ ایک بچہ شدید زخموں کی حالت میں ہے اور شاید اپنی آخری سانس لے رہا ہے، اسی کی عمر کا دوسرا بچہ اس کو کلمہ پڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کیسے انوکھے منظر ہیں جو ہماری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے اور میں سوچ میں پڑ جاتی ہوں یہ بچے بھی کسی اور ہی مٹی سے بنے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے بچوں کو تو کیا کالج یونیورسٹی کے طالب علموں کو بھی بیت المقدس کی تاریخ و تہذیب کا علم نہیں ہوگا۔فلسطین کی ایک جواں سال قابل شاعرہ حبہ کمال بھی اس جنگ میں شہید ہو گئیں۔ان کی شہادت سے کچھ دن پہلے ان کا ایک بیان سامنے آیا کہ اگر ہم مارے جائیں تو یاد رکھنا کہ ہم نے بہادری سے اس جنگ کا مقابلہ کیا ہے۔ وہ 1991میں سعودی عرب میں پیدا ہوئی ۔ غزہ یونیورسٹی سے نیوٹریشن میں اعلی ڈگری حاصل کی۔وہ صرف شاعرہ نہیں تھی بلکہ اس نے ناول بھی لکھا۔ اس کا ایک ناول بڑا مقبول ہواجس کا نام ’’آکسیجن از ٹ فار دی ڈیڈ‘‘ ہے۔ اس پر اسیشارجہ ایوارڈز فار کرییٹیوٹی بھی ملا۔ 32 برس کی عمر میں حبہ کمال ابو ندا جس نے شاید مستقبل میں اور بھی بہت کچھ لکھنا تھا اپنے گھر میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے شہید ہوگئی۔ اسرائیل ہولناک بمباری میں فلسطین کے بچوں کو، شاعروں ادیبوں، نوجوانوں عورتوں مردوں کو مار رہا ہے ۔ یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی جنگ ہے۔ کتنے سنہرے خواب ۔اور امکانات کے قیمتی جہان اس بے رحم جنگ کے شعلوں میں راکھ ہوگئے۔ فلسطین کی ایک بچی کی ویڈیو ہے وہ زخمی ہے۔ فلسطین کی چھوٹی سی مجاہدہ اور اس کے ایمان کا قصہ بھی سن لیں: فلسطینی بچوں کو پتہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خاطر ایک بڑی جنگ کا حصہ ہیں اور وہ شہید ہو سکتے ہیں۔ ایک بچی کہتی ہے کہ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میرے مرنے کے بعد میرے جوتے صاف کرکے کسی غریب بچے کو دے دینا اور پھر اس ڈائری میں وصیت درج کرتی ہے کہ میری پاکٹ منی کا اتنا حصہ میری ماں کو جائے گا اتنا اتنا حصہ میرے دو بہن بھائیوں کو ملے گا۔یہ ہر روز دیکھے جانے والے مناظر ہیں۔وہ بہت شدید زخمی ہے اس کی عمر پانچ چھ سال ہوگی اس سے زیادہ نہیں ۔ وہ شدید زخمی بچی میڈیا کے کسی نمائندے سے بات کرتی ہے۔ اسے کہتی ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ اللہ کی آزمائش ہے۔ خدا دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم اس کو سہ پاتے ہیں یا نہیں۔ اللہ اکبر۔۔ یہ لعل و گہر کون سی مٹی سے بنے ہیں۔۔فلسطین کے زخمی بچے کراہتے ہوئے دنیا کی طاقتوں کو پکار رہے ہیں کہ جنگ بند کی جائے۔ اب تک او آئی سی کی سطح پر بھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا۔ مسلمان ملکوں کے سربراہان مل بیٹھتے ، متحد سفارتی کوششوں سے کوئی حل نکالنے کی سبیل کرتے،ہمیں نیت اور مخلصانہ کوشش کا ثواب ملے گا۔ زمینی حقائق تلخ سہی ، مسلم دنیا کے مغربی طاقتوں کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کوئی مخلصانہ کوشش دنیا کو نظر آنی چاہیے تھی کہ مسلم دنیا کے کرتا دھرتا لہو لہو فلسطینی بچوں کی چیخ وپکار پر بے چین ہوئے ہیں۔یہاں تو عجیب بے حسی ہے۔ہمارے نام نہاد دانشوروں کو کرکٹ میچ ہارنے کا غم ہے۔ مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے۔