ہمارا ذہن ایک ایسا کارخانہ ہے جو سوچنے کا کام شاید نیند میں بھی جاری رکھتا ہے۔یعنی شعور نہیں تو لاشعور کی عمیق گزر گاہوں سے خیالات کے کارواں گزرتے رہتے ہیں ایک دن میں پچاس ہزار خیالات انسانی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں اور ان میں بھی 80فیصد منفی خیالات ہوتے ہیں۔ اوور تھنکنگ کا شکار افراد میں کوئی منفی سوچ ضرب ہوتی رہتی ہے یوں سوچ کا ایسا بھنور پیدا ہوتا ہے جو اس کی زندگی کو یر غمال بنالیتا ہے ۔اوور تھنکنگ ہمیشہ دو سمتوں میں ہوتی ہے یا ہم ماضی کے غلط فیصلوں ، حادثوں اور ماضی میں ماضی میں بیتے لوگوں کے تلخ رویوں کو سوچتے رہتے ہیں ، یا ہم آنے والے دنوں کے بارے میں عدم تحفظ کا شکار ہو کر مسلسل پریشان رہتے ہیں اور اپنے ذہن میں ہمہ وقت ان متوقع پریشانیوں کو ضربیں دینے میں لگے رہتے ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ ہماری سوچ نے ہی انہیں جنم دیا ہوتا ہے۔یاد رکھیے کہ ہماری زندگی ماضی یا مستقبل میں ایگزسٹ نہیں کرتی جو لمحہ موجود ہے وہی ہماری زندگی ہے۔ ماضی کے گرفتار ہوکر یا پھر مستقبل کی متوقع پریشانیوں کا سوچ کر ہم ہم لمحہ موجود میں سانس لیتی اصل زندگی کے کینوس پر نا امیدی کا کالا رنگ پھیر تے رہتے ہیں اور ساتھ پڑے سات رنگوں کی کہکشاں کو نظر انداز کر دیتے ہیں یہ وہ رنگ جن سے ہم اپنی زندگی کے کینوس کو خوبصورت بناسکتے ہیں مگر اوورتھکنگ ہمیں ایسا کرنے نہیں دیتی۔ذرا سوچیں کون ایسا ہے جس کی زندگی میں ہمیشہ سب اچھا ہی ہوا ہو۔ کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے کبھی زندگی میں شکست نہیں دیکھی اس نے کبھی زندگی میں تلخ رویوں کا سامنا نہیں کیا، اس کے فیصلے غلط نہیں ہوئے یا زندگی میں کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایک نارمل انسانی زندگی کچھ ٹوٹے ہوئے خوابوں، کچھ تعبیروں کچھ ناتمام آرزوؤں کچھ کامیابیوں ، کچھ ناکامیوں کے ساتھ ڈھیر ساری امید کا مجموعہ ہوتی ہے۔.اس معاملے میں بھی خواتین مردوں پر بازی لے جاتی ہیں کیونکہ وہ زیادہ حساس ہوتی ہیں ایک ہی سوچ ان کے یہاں کئی گنا زیادہ ملٹی پلائی ہوتی رہتی ہے۔کم و بیش ہر شخص اپنی اپنی سطح پر اوبر تھنکنگ کرتا ہے۔ یہ رحجان شدت پکڑ لے تو پھر یہ۔نفسیاتی بیماری ہے اگر آپ ذہنی طور پر صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور آپ نے دن کو بہتر انداز میں پروڈکٹو بنانا چاہتے ہیں تو فوری طور پر اپنے اندر اس عادت کو پہچانیے اور اور اس عادت کو آہستہ آہستہ اپنی سوچ کے دائرے سے نکال باہر کریں۔کچھ تکنیکس ایسی ہیں جس پر عمل کر کے آپ رفتہ رفتہ اوور تھنکنگ پر قابو پا سکتے ہیں۔ جب آپ کو محسوس ہو کہ آپ کی سوچ کے الیکٹران ایک منفی خیال کے نیوکلیس کے گرد گھومنے لگے ہیں تو سمجھیں آپ ایک شیطانی دائرے میں پھنس چکے ہیں۔ اس کے تسلسل کو روکنے کے لیے لمبی سا نس لیں اور اپنے دماغ کو با بار کمانڈ دیں رک جاو، پھر خود کو کسی پسندیدہ سرگرمی میں مصروف کریں۔ضروری ہے کہ زندگی کی تمام تر مصروفیات کے ساتھ آپ کا کوئی مشغلہ بھی ہو۔ایسا کام جو صرف آپ اپنی خوشی کے لیے کریں۔جرنلنگ یعنی نوٹ بک پر اپنی سوچوں کو اسی طرح لکھ دینا جس طرح سے وہ آپ کے ذہن میں آرہی ہیں منفی سوچوں کے بھنور سے نکلنے کا موثر طریقہ ہے یہ ایسا طریقہ ہے جس سے آپ اپنے دماغ کے بوجھ کو ہلکا کرتے ہیں۔ تصور کریں کہ آپ ایک بھاری پتھر سر پر اٹھائے چلے جارہے ہیں آپ نے ابھی طویل سفر کرنا ہے آخر کب تک اس بوجھ کو اٹھا کے چلتے رہیں گے بالآخر تھک جائیں گے یا پھر یہ ہوگا کہ اس کو اٹھائے کمر میں درد ہونے لگی سو اس پتھر کو آپ راستے ہی میں چھوڑ دیں گے تاکہ ہلکا پھلکا ہوکر سفر جاری رکھیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اوور تھنکنگ میں انسانی ذہن منفی چیزوں کے بارے میں سوچتا ہے پنجابی کہاوت ہے سوچی پیا تے بندہ گیا۔اسی چیز کو انگریزی میں کیٹس نے کہا کہ to be think is to be full of sorrow. مسز ارشد ایک ہاؤس وائف ہیں ان کے شوہر انجائنا کی تکلیف ہوئی اسپتال داخل کرلیے گئے مسز ارشد کے ذہن میں اپنے شوہر کی بیماری اور اس کے بعد کے حالات کو سوچ کر پریشان کن سوچوں کا ایک ایسا بھنور پیدا ہوا جس نے ان کے سوچ کی ساری امیدوں کو نچوڑ لیا نتیجتاً وہ خود بیمار پڑ گئیں۔ادھر شوہر ہسپتال میں ایڈمٹ تھے ان کو آپریشن ہونا تھا ادھر خود مسز ارشد کا بلڈ پریشر کنٹرول نہیں ہورہا تھا اور یہ سب کیا دھرا اوور تھنکنگ تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول یاد آتا ہے کہ پریشانی میں پریشان ہونا سب سے بڑی پریشانی ہے۔ اسلام نے بہت آسان سا نسخہ ہمیں بتایا ہے جو پریشانی اور دکھ کے عالم میں بھی ہمیں ڈھارس دے کر ہماری سوچوں کو مثبت سمت میں رکھتا ہے اور وہ عمل ہے دعا کرنا، فیس بک کے آستانے پر منگوائی جانے والی دعائیں نہیں , بلکہ خلوص دل سے رب کے حضور اشکبار ہوکے دست دعا پھیلانا.سو آپ کسی مشکل میں گرفتار ہیں تو آسانی کی دعا کیجئے۔ بیمار ہیں تو صحت کی دعا کیجیے۔۔دنیاوی اسباب کے ساتھ دعا کا عمل پریشانی کے عالم میں بھی ہماری سوچ کو منفی سمت میں جانے سے بچا لے گا ۔دعا کو عبادت کا مغز کہا گیا ہے دعا ہے کیا؟ اپنی سوچوں کو امید اور یقیںکے دائرے میں رکھنا۔کسی پریشانی میں خود سے مکالمہ کرنا اوور تھنکنگ کی بیماری ہے اور اسی مکالمے کا زخ اللہ کی طرف موڑ دینا دعا ہے ،وہ سوچ جو آپ کے ذہن میں تکلیف دہ بھنور اس قدر پیدا کرے کہ خود آپ کا وجود اس بھنور میں ڈوبنے لگے تو اس خطرے کو پہچانیں اپنی قیمتی زندگی چند منفی سوچوں کو یرغمال نہ بنانے دیں۔