نگورنو کاراباخ کے علیحدگی پسند رہنما سمویل شہرامیان کے 28 ستمبر کو کیے گئے اِعلان کے مطابق یکم جنوری 2024 کو نگورنو کاراباخ کی خود ساختہ جمہوریہ کا وجود ختم ہو جائے گا۔ ان کے دستخط شدہ ایک فرمان کے مطابق، تمام ریاستی ادارے یکم جنوری 2024 سے تحلیل کر دیے جائیں گے۔ فرمان کے اَلفاظ میں "ریپبلک آف نگورنو کاراباخ (آرٹسخ) اپنا وجود ختم کر رہا ہے"۔ اِس طرح نگورنو کاراباخ کے علاقے کی آزادی کی آرمینیائی جدوجہد کو مؤثر طریقے سے ختم کردیا گیا ہے۔ اِس سال 19 ستمبر کو دوپہر 1 بجے، آذربائیجانی افواج نے توپ خانے اور ڈرونز سے علاقے پر حملہ کرنا شروع کر دیا جسے "انسداد دہشت گردی" آپریشن کہا گیا۔ آذربائیجان نے چار فوجیوں اور دو شہریوں کی بارودی سرنگوں کے ذریعے ہلاک ہونے کے چند گھنٹے بعد اِس فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ ان کے بقول یہ فوجی آپریشن بارودی سرنگوں کے ذریعے کیے گئے حملے کے جواب میں کیا گیا۔ بارودی سرنگوں کے بارے میں باکو کا دعویٰ تھا کہ آرمینیائی تخریب کاروں نے بچھائی تھی۔ دوسری طرف آرمینیا کی وزارت خارجہ نے آذربائیجان کے فوجی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اِسے آذربائیجان کی آرمینیائی آبادی کی "نسلی تطہیر" قرار دیا اور آذربائیجان کو نگورنو کاراباخ کے لوگوں کے خلاف ایک اور بڑے پیمانے پر جارحیت کا مرتکب قرار دیا۔ نگورنو کاراباخ بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کے حصے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کا زیادہ تر حصہ غیر تسلیم شدہ ناگورنو کاراباخ جمہوریہ کے زیر انتظام ہے۔ کاراباخ ایک آذری لفظ کا روسی ترجمہ ہے جس کا مطلب ہے "سیاہ باغ"، جبکہ نگورنو ایک روسی بنیاد رکھنے والا لفظ ہے جس کا مطلب ہے"پہاڑی"۔2017 میں منعقد ہونے والے ایک ریفرنڈم میں کے ذریے رائے دہندگان نے ایک نئے آئین کی منظوری دی جس سے حکومت کو نیم صدارتی سے مکمل طور پر صدارتی بنا دیا گیا جبکہ علاقے نے اپنا نام نگورنو کاراباخ جمہوریہ سے بدل کر جمہوریہ آرٹسخ کر دیا۔ آرٹسخ اس علاقے کا ایک قدیم آرمینیائی نام ہے۔ اَلبتہ دونوں ہی سرکاری نام ہیں۔ اگرچہ نگورنو کاراباخ کا تنازعہ صدیوں پرانا ہے لیکن حالیہ لڑائی کو 2020ء میں ہونے والی لڑائی سے جوڑا جا سکتا ہے جب آذربائیجان اور آرمینیائی فوجوں کے مابین جنگ ہوئی اور نتیجتاً آذربائیجان نے نگورنوکاراباخ کے ایک تہائی علاقے سمیت جغرافیائی طور پر اہم سرحدی پٹی کا کنٹرول سنبھال لیا۔ آرمینیائی اور آذربائیجانیوں کے درمیان تنازعہ کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اِس تنازعہ کی اِبتدا ساتویں صدی میں ہوئی، جب عیسائی بازنطینیوں نے مسلم عربوں کے خلاف کنٹرول کے لیے جنگ کی۔ بعد میں عثمانی عہد میں، آرمینیائی آبادی نے اَپنے تحفظ کے لیے روس کی طرف دیکھا۔ جیسے ہی 18 ویں صدی میں عیسائی آرمینیائی فارس کے دباؤ میں آئے، روسی ملکہ، کیتھرین دی گریٹ نے ان کے لیے تحفظ کے خطوط جاری کیے۔ 1804 ء سے 1813 ء کی روس اور فارس کے مابین جنگ کے نتیجے میں نگورنو کاراباخ کے روس کے کنٹرول میں آنے کے بعد، عیسائی آرمینیائی آبادی کو اِس علاقے کے ترک مسلمانوں پر ترجیحی سلوک ملا۔ یہ ترک مسلمان بعد میں آذربائیجان کے نام سے مشہور ہوئے۔ سلطنت عثمانیہ میں 1915-1916 کی آرمینیائی نسل کشی نے بہت سے آرمینی باشندوں کو نگورنو کاراباخ کی طرف بھاگنے پر مجبور کیا، اور آذربائیجان کی آبادی کے ساتھ تنازعہ کو بڑھا دیا۔ مارچ 1918 میں، آذربائیجانیوں کے خلاف قتل و غارت گری ہوئی، اور پھر آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں آرمینیائی باشندوں کا قتلِ عام ہوا۔ کاراباخ کے حکام نے 1988ء میں ایک قرارداد منظور کی جس میں آرمینیا کی جمہوریہ میں شامل ہونے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا گیا۔ 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد آرمینیا اور آذربائیجان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ نگورنو کاراباخ کے علاقے نے 3 ستمبر 1991ء کو اس کی پیروی کی۔ اِس طرح سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی لڑائی شروع ہو گئی، جو پہلی کاراباخ جنگ بن گئی۔ 1992ء کے اوائل میں آذربائیجانی اور آرمینیائی دیہاتوں میں زیادہ قتل عام ہوئے۔ چھ سال کے تشدد کے دوران تقریباً 30,000 افراد مارے گئے، جو 1994 میں اس وقت ختم ہوا جب 12 مئی 1994 کو ایک جنگ بندی معاہدہ عمل میں آیا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کا تعلق آرمینیا سے نہیں بلکہ آذربائیجان سے ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ اس خطے کو آرمینیا کا ایک "لازمی حصہ" سمجھتے ہیں، لیکن آرمینیا نے کبھی بھی الگ ہونے والے علاقے کو تسلیم نہیں کیا حتیٰ کہ آرمینیائی پارلیمنٹ اور حکومت نے نگورنو کاراباخ کی آزادی کو تسلیم کرنے کے لیے قوانین کے مسودے کو روک دیا تھا۔1990ء کی دہائی کے بعد سے سب سے بڑی فوجی لڑائی 2020 ء میں شروع ہوئی جو دوسری نگورنو کاراباخ جنگ کے نام سے جانی جاتی ہے، جس کے بعد نگورنو کاراباخ کے خطے نے آرمینیا کی حمایت کے باوجود اپنے علاقے کھو دیئے۔ آذربائیجان، اپنے تاریخی اتحادی ترکی کی حمایت سے، صرف 44 دنوں میں کاراباخ کے ایک تہائی علاقے پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا، جبکہ روس کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے نتیجے میں دونوں فریقین اپنے ہتھیار ڈالنے پر راضی ہوئے۔ جنگ بندی کے معاہدے کے تحت آرمینیائی افواج کو ان علاقوں سے پیچھے ہٹنا پڑا اور اس کے بعد سے وہ علاقے کے ایک چھوٹے سے حصے تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ علاقائی طاقتیں کئی سالوں سے تنازعات میں بہت زیادہ ملوث رہی ہیں۔ خطے میں تیل اور گیس کی کئی بڑی پائپ لائنوں کی وجہ سے یہ تنازعہ دو ریاستوں سے کہیں زیادہ جغرافیائی سیاسی مطابقت رکھتا ہے جو بحیرہ کیسپین سے ترکی کے بحیرہ روم کے ساحل تک روزانہ لاکھوں بیرل لے جاتی ہے۔ فروری 2022 میں یوکرائن پر روس کے مکمل حملے کے بعد سے، آذربائیجان یورپی یونین کو مزید گیس فراہم کر رہا ہے۔ اِس لیے یورپی ممالک نے بھی کھل کر آذربائیجان کی مخالفت نہیں کی۔ ترکی کے آذربائیجان سے قریبی ثقافتی اور تاریخی روابط ہیں۔ ترک ساختہ Bayraktar ڈرونز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 2020 میں لڑائی میں ایک اہم کردار ادا کیا، جس سے آذربائیجان کو علاقائی فوائد حاصل کرنے کا موقع ملا۔ دوسری طرف آرمینیا کے روس کے ساتھ روایتی طور پر اچھے تعلقات تھے۔ آرمینیا میں ایک روسی فوجی اڈہ ہے اور دونوں ملک چھ سابق سوویت ریاستوں کے "اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم"کے فوجی اتحاد کے رکن ہیں لیکن آرمینیا اور روس کے درمیان تعلقات اس وقت سے خراب ہو گئے ہیں جب سے نکول پشینیان، جنہوں نے 2018 میں حکومت مخالف بڑے مظاہروں کی قیادت کی تھی، آرمینیا کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ مسٹر پشینیان نے حال ہی میں کہا تھا کہ آرمینیا کا روس پر سلامتی کے واحد ذریعہ کے طور پر انحصار ایک "اسٹریٹجک غلطی" تھی۔ آرمینیا نے اِس ماہ کے شروع میں امریکی افواج کے ساتھ مشترکہ مشقیں کی تھیں۔ عالمی سیاست میں ہونے والی نئی صف بندی، روس کا سنٹرل اِیشیا اور مشرقی یورپ میں اپنے مفادات کے تحفظ باالخصوص روس اور یوکرائن کے مابین جاری جنگ ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے نگورنو کاراباخ جیسا پرانا تنازعہ آذربائیجان کے حق میں مستقل طور پر حل ہوتا نظرآتا ہے۔