پچھلے چند سالوں میں جنگلات کے کٹاو اور چوری جیسے گھناونے جرم کی روک تھام کے حوالے سے عوامی شعور بیدار ہوا ہے جسکے اثرات ملکی سیاست پر واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس وقت بلین ٹری منصوبہ اپنے جوبن پر ہے اور پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ملکی خزانے میں چوری کی روک تھام کے لیے حکومت احتساب کا نعرہ لیکر چل رہی ہے ، امید باندھی جاسکتی ہے کہ ان عوامل پر بھی اس کی نظر ضرور پڑے گی جو چوری جیسے عمل کا سبب بنتے ہیں۔انیسویں صدی کے جاتے برسوں میں جب برطانوی ہند نے خطہ پاک پر اپنا تسلط جمایا تھا اس وقت جنگلات کی کمی نہیں تھیں لیکن چوری بہر طور ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ اسکے آزمودہ تعزیراتی قوانین بھی جب ناکام ہونے شروع ہوئے تو پتہ نہیں اسے کیا سوجھی کہ جنگلات کے پیچھے پڑگیا۔ کہاں اسکا دریا سندھ کو تجارتی راہداری بنانے اور خواجہ فرید کی جنم بھومی ،کوٹ مٹھن کو اس نے خطے کی سب سے بڑی بندرگاہ تعمیر کرنے کا منصوبہ اور کہاں یہ کہ اس نے بڑے پیمانے پر جنگلات کٹوا کر اس کی لکڑی سرکاری عمارات اور ریلوے لائنوں میں جھونک ڈالی۔ حاکم وقت، جو کہ دنیا کی سپر پاور تھا، اسے یہی سمجھ میں آیا تھا کہ جب تک جنگلات ہیں اور ان کے بیچوں بیچ گزرتے دریا آزادی سے بہہ رہے ہیں، اس کے اقتدار کو بہر حال خطرہ ہے۔ وہ یوں کہ دریا اور اسکے قرب وجوار میں پھیلے جنگل میں ملکیت کا تصور نہیں تھا۔ صدیوں سے یہاں بسے انسانوں نے ان کے گرد ایک معاشی نظام بنا لیا تھا۔ مون سون کے بارشوں کے نتیجے میں دریا بہتے جنگلات سے پیدا ہونے والے رکاوٹ کی وجہ سے چیختا چنگھاڑتا سمندر میں جا گرنے کی بجائے آرام آرام سے نکلتا تھا۔ سمجھ لیں مہینے لگ جاتے تھے۔ یہ دریا اور جنگلات اس خطے کو اتنی اجناس اور لحمیات (پروٹین) مہیا کردیتے تھے کہ لوگوں کو کسی مرکزی حکومت کے سہارے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ میلوں پھیلے دریا اور انکے دامن میں اگے جنگلات بیرونی حملہ آوروں کے بھی حوصلے پست رکھتے تھے، یوں امن و امان کا مسئلہ بھی حل تھا۔ حملہ آور آتے بھی تھے تو ان جنگلات سے محتاط انداز میں گزر کر ملتان اور دہلی جاکر دم لیتے تھے۔ عام لوگوں کا ان معاملات میں کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ لوگ آپسی معاملات رواج کی روشنی میں حل کرلیتے تھے۔ اگر ان کا مسئلہ کوئی تھا تو وہ چوری تھا۔ اسکا کوئی علاج نہیں تھا سوائے اس کے کہ چور کوچوری کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ رات کا ٹھکری پہرہ، پنچائتی نظام اور چور کا معاشرتی بائیکاٹ اسی دور نشانیاں ہیں۔ چور پکڑ لیے جاتے تو انکا منہ کالا کرکے چھوڑ دیا جاتا اور جب بھی کسی کی چوری ہوتی ، معلوم چوروں کو صفائی کے لیے پنچائت کے سامنے حاضر ہونا پڑتا۔ انگریز ان جنگلات کے باسیوں کو نہایت حقارت سے دیکھتا تھا، انہیں وحشی اور غیر مہذب گردانتا تھا۔ یہ لوگ اس کے کسی کام کے نہیں تھے کہ نہ تو ریاستی امور میں دلچسپی لیتے تھے اور نہ ہی انکی معیشت ایسی تھی کہ وہ سرکار کو ٹیکس دے سکیں۔ مویشی پالنا ، مچھلیوں کا شکار کرنا ۔ دریاوں کے کنارے محدود کھیتی باڑی۔ انگریز تجارت پیشہ قوم تھی ، اسے تو شہر اور منڈیاں بسانی تھی۔ ایک ریاست کی جڑیں مضبوطی سے گاڑنے کے لیے ضروری تھا کہ جنگلات صاف کیے جائیں، زمینیں نیلام کی جائیں اور دریاوں سے نہریں نکال کر ان کے سیراب کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ زراعت جو جنگلات کے کناروں تک محدود تھی ، اس پانی سے بیابان اور صحراوں کی بھی آباد کردیا جائے۔ اس عمل سے پیداہونے والے ماحولیات بگاڑ کا اس کو اگر اندازہ بھی تھا تو بھی اس نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے نظر انداز کردیا۔ جنگلات کا کٹنے اور دریاوں کا رخ مڑنے سے جو ارض پاک میں سماجی بھونچال آیا اس پر باقاعدہ تحقیق کی ضرورت ہے، اس عمل سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل کا حکومت وقت کے پاس کوئی علاج نہیں تھا سوائے اس کے کہ لوگوں پر ایک جابرانہ نظام مسلط کردیا جائے۔ زمین کو رشوت کے طور پر استعمال کرکے وفاداریاں خریدی گئیں جاگیرداری نظام کو وراثتی کردیا گیا ۔ خانقاہوں کے لنگر چلانے کے لیے لوگوں کی طرف سے ہبہ کی گئی زمینیں، گدی نشینوں کے نام کردی گئیں۔ یہی جاگیردار اور گدی نشین ، محصولات اور مجسٹریسی اختیارات سے نوازے گئے ،تاج برطانیہ کو سپاہی مہیا کرنے کا فریضہ انہیں کے کندھوں پر تھا۔ برطانیہ میں سیاسی تبدیلی آئی اور مقبوضہ علاقوں میں جمہوریت لانے کا مرحلہ آیا تو یہی لوگ سیاسی عمل میں بھی شریک ہوئے۔ زیادہ پیداوار کی لالچ میں زمینداروں نے بے تحاشا کیمیائی کھاد اور زہریلی کیڑے مار دواوں کا استعمال کیا ہے جس کے اثرات زیر زمین پانی تک بھی پہنچ گئے ہیں۔ دریاوں سے دور جو خطے آبادکیے گئے ، وہاں پر پہنچے والانہری پانی بھی صاف نہیں ہے کہ اس میں صنعتی فضلہ اور شہروں کی سیوریج شامل ہے۔ مون سون کی بارشیں ہونا بند نہیں ہوئیں بلکہ معمول سے زیادہ ہورہی ہیں۔ اگر مسئلہ ہے تو صاف پانی کا جو وقت کے ساتھ ساتھ سنگین ہوتاجارہا ہے۔ جنگل نہیں تو یہ پانی اسکے دامن میں آباد، بستیوں کو روندتا، کھیتوں اور کھلیانوں کو اجاڑتا مہینوں نہیں ہفتوں میں سمندر میں جا گرتا ہے۔ شور اٹھا کہ پاکستان پانی کے بحران کا شکار ہے، کسی نے تصحیح نہیں کی ملک پانی کا نہیں صاف پانی کے بحران کا شکار ہے آبی آلودگی کا سدباب کرنا ہے۔ غذائی قلت کا حل دریاوں کو زندہ کرنا ہے کہ ان کے دامن میں دالیں اگتی ہیں اور لائیو سٹاک پلتا ہے۔ مسائل ہیں ، ہوتے ہیں ،لیکن ان کوصحیح تناظر میں سمجھنا ان کے حل کی پہلی سیڑھی ہے۔ ملک میں شعور آیا ہے، جنگلات کا رقبہ بڑھانے کی بات بھی ہوتی ہے، آلودگی پر قابو پانے کے ذمہ دار اداروں کو بھی وقتاً فوقتاًً متحرک کردیا جاتا ہے، غذائی بحران کا بھی واویلا مچایا جاتا ہے ، لیکن مسائل کو انکے صحیح تناظر میں نہ دیکھنے کی وجہ سے انکے حل کی سمت اٹھایا جانے والا مطلوبہ نتائج نہیں دیتا۔ جنگلات کے رقبے میں کمی، صاف پانی کی قلت اور غذائی بحران کا شعور اور سیاسی بحث میں ان کا آنا اپنی جگہ پر ٹھیک ہے، لیکن ملکی پالیسیوں پر اسکے مربوط اثرات لانے کیلیے ان مسائل سے متاثر ہونے والے لوگوں، جن کی تعداد ملک کا کم ازکم ایک تہائی بنتی ہے، ان سے ہمدردی اور ان کے زخموں کا مداواکیا جانا ضروری ہے۔