پنجاب پولیس تقریباً دو لاکھ کی فورس ہے۔ اِس فورس میں ایک انسپکٹر جنرل آف پولیس، درجن بھر ایڈیشنل آئی جیز، شاید دو درجن ڈپٹی انسپکٹر جنرلز، 100کے قریب ایس ایس پیز، ایس پیز، اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، ڈی ایس پیز، انسپکٹرز، اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، ہیڈ کانسٹیبلز اور کانسٹیبلز شامل ہیں۔ فورس میں سب سے بڑی تعداد کانسٹیبلز اور ہیڈ کانسٹیبلز کی ہے جو پنجاب پولیس میں ریڑھ کی ہڈ ی کی حیثیت رکھتے ہیں۔شعبہ پولیس کی عمارت دو کیڈرز پر کھڑی ہے۔ پولیس سروس آف پاکستان یعنی پی ایس پی اور رینکر کیڈر۔ پی ایس پی کیڈر کے پولیس سروس آف پاکستان میں بھرتی ہونے والے اْمیدواران مقابلے کا امتحان یعنی سی ایس ایس پاس کرنے کے بعد بطور اے ایس پی (گریڈ سترہ) میں براہِ راست بھرتی ہوتے ہیں۔ جبکہ رینکر کیڈر میں اْمیدواران بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، انسپکٹر ز یا کبھی کبھار براہِ راست ڈی ایس پیز بھرتی ہوتے ہیں۔ دورانِ سروس ترقی کرتے کرتے رینکرز میں سے کچھ افسران ایس ایس پیز یا شاز و نادر ڈی آئی جی اور ہزاروں میں سے اِکا دْکا ایڈیشنل آئی جیز کے رینک تک ترقی حاصل کرپاتے ہیں۔پنجاب پولیس میں اعلیٰ افسران کی وابستگیاں بھی اعلیٰ لیول کی ہوتی ہیں جبکہ نچلے رینک کے اہلکاروں کی وابستگیاں بھی علاقائی ہوتی ہیں۔ دونوں کیڈرز کے سبھی معاملات اِسی درجہ بندی سے طے ہوتے ہیں۔ عرصہ ِ دراز تک کرائم رپورٹنگ کرنے کے بعد یہی تجربہ حاصل ہوا کہ رینکر کی ترقی ہوتی نہیں اور پی ایس پی کی ترقی رْکتی نہیں۔ پی ایس پی افسران کے لئے شاندارسرکاری گھر، ملازم، گاڑیاں اور ڈرائیور ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں جبکہ رینکر ملازمین جن میں اکثریت کانسٹیبل، ہیڈ کانسٹیبل اور اے ایس آئیز کی ہوتی ہے اْن کے لئے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پنجاب پولیس کا سب سے بڑی ذمہ داری کرائم کنٹرول کرنا ہے اور جرائم پہ قابو پانے کیلئے جنہیں سب سے زیادہ قربانی دینا پڑتی ہے وہ کانسٹیبل، ہیڈ کانسٹیبل اور اے ایس آئیز ہیں۔ عمومی طور پر ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر ہی انوسٹی گیشن آفیسر ہوتا ہے جس کے ذمہ ایس ایچ اوز اور دیگر سپروائزری افسران مختلف نوعیت کے مقدمات سپرد کرتے ہیں اور اْنہیں سختی سے تاکید کی جاتی ہے کہ مقدمات کی سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی جائے اور وقت سے پہلے چالان جمع کرایا جائے۔ اِس کام کیلئے انوسٹی گیشن افسر کو مقدمہ کی تحقیق کی مد میں ایک خاص رقم دی جاتی ہے جسے ’کاسٹ آف انوسٹی گیشن‘ کہتے ہیں۔ یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ کی مانند ہوتی ہے۔ نچلی سطح پہ اِسی مرحلے سے بدعنوانی کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر ایک انوسٹی گیشن آفیسر بروقت مقدمے کا چالان جمع نہیں کراتا تو اْسے ایک طرف افسران کی جانب سے جواب دہی کا سامنا ہوتا ہے اور دوسری طرف سروس بک میں اْسے نااہل تصور کیا جاتا ہے۔ سیاسی مداخلت کا آغاز اِسی مرحلے سے ہوتا ہے۔ دوسری طرف اْسے یقین ہوتا ہے کہ زندگی میں شاید ہی کبھی اْس کی ترقی ہوگی وگرنہ اْسی سٹیج پہ وہ ریٹائر ہوجائے گا۔ دورانِ سروس بھی ایک پولیس اہلکار کومعاشرتی سطح پہ کئی طرح کے سماجی رویوں اور افسران کی جانب سے مختلف اقسام کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یقین جانئے کہ یہ ایسا سٹیٹس کو تھا جو سالہ سال سے قائم تھا جسے کوئی افسر نہیں توڑ سکا۔ اب دوسرا مسئلہ کانسٹیبل شاہد جٹ کے رویے کا ہے۔ یہ رویہ پنجاب پولیس میں کئی دہائیوں سے جنم لے چکا ہے۔ پنجاب پولیس میں اعلیٰ افسران کو چھٹیاں نصیب ہوجاتی ہیں مگر چھوٹے رینک کے اہلکاروں کو ہفتہ میں ایک چھٹی بڑی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔اْس دن متعلقہ اہلکار اپناموبائل نمبر بند کردیتا ہے تاکہ اپنی گھریلو ذمہ داریاں نبھا سکے۔ اگر دو چار دن وہ گھریلو ذمہ داریوں کی بدولت غیر حاضر ہوجائے تو اْسے اعلیٰ افسران نوکری سے نکال دیتے ہیں حالانکہ اْس ملازم کا اِس میں کوئی قصور نہیں ہوتا۔ اعلیٰ افسران اْن وجوہات کو جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے کہ وہ ملازم بنا چھٹی لئے ڈیوٹی سے غیر حاضر کیوں رہا ہے؟ بلکہ اْس کے خلاف فوراََ سے پہلے محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ معمولی کوتاہی پر شو کاز، سینشور اور دیگر سزائیں معمول کی کارروائی سمجھی جاتی ہیں۔ اِن کارروائیوں نے پنجاب پولیس کے نچلے رینک کے اہلکاروں میں وہ رویہ جنم لے چکا ہے جس کا اظہار کانسٹیبل شاہد جٹ نے کچھ عرصہ پہلے دورانِ بائیک ڈرائیونگ کیا۔ حیران کن طور پرآئی جی پولیس نے برہمی کا اظہار کرنے کی بجائے شاید تاریخ میں پہلی بار اپنی فورس کے اْس رویے کی طرف توجہ دی، کئی بار شاہد جٹ سے ملاقاتیں کیں، اْن کے گھر گئے، شاہد کے بچوں سے ملے اور سوشل میڈیا پہ چلنے والی ویڈیو سے اْن بچوں پر جو منفی اثرات مرتب ہوئے اْنہیں زائل کرنی کی کوشش کی۔مگر یہ انفرادی مسئلہ نہیں ہے۔ سہولیات کی کمی، چھٹیاں نہ ہونے کے برابر، گھر سے دور تعیناتی، دورانِ تعیناتی سرکاری قیام و طعام کی سہولیات میں کمی، بچوں کی تعلیم و صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی سمیت کئی ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ رویہ پختہ ہوچکا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ بیرون ملک فورسز کی طرز پر نفسیاتی مسائل کے حل کیلئے پنجاب پولیس میں بھی ایسا کریکولم ترتیب دیا جائے جس سے نچلے رینک کے اہلکاروں کی اخلاقی و نفسیاتی تربیت پیشہ ورانہ تربیت کا جز و لازم ہو۔ پنجاب پولیس میں ایڈیشنل آئی جی ویلفیئر اینڈ فنانس کی یہ ذمہ داری لگائی جائے کہ وہ پنجاب پولیس کے دونوں کیڈرز کے نفسیاتی مسائل کے حل کیلئے خصوصی لیکچرز کا انعقاد کریں۔ معاشرے کے مختلف شعبہ جات کے نمایاں افراد کو مدعو کیا جائے اور پولیس اہلکاران سے باہمی روابط قائم کئے جائیں۔ ابتدائی طور پر تمام ضلعی افسران کو ہدایات دی جائیں کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں نمایاں شخصیات کو ہفتہ وار لیکچر کیلئے مدعو ع کریں اور پولیس لائنز میں یہ لیکچرز منعقد کروائے جائیں۔ ضلعی افسران و اہلکاران کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی بھی تربیت دی جائے تاکہ وہ فورس کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کریں اور عوام تک پولیس سروسز پہنچانے میں معاونت کرنے کیلئے سوشل میڈیا کو بطور ٹول استعمال کریں۔