کرنٹ افیئرز کا بازار گرم ہے۔پولیٹیکل سٹاک ایکسچینج میں نجوم اور پیشگوئیوں کا سیلاب عروج پر ہے۔ اگر ہندو ودیا کے مطابق زائچہ نکالا جائے تو راہو اور کیشو کے اثرات کنڈلی کے پہلے گھر میں بیٹھے خان کو کافی ستا رہے ہیں اور رات کو خواب میں استاد نذر حسین اپنی ایک دھن کا حوالہ دے کر بار بار نظر آتے ہیں۔ دھن کے بول اب خان کو یاد ہوتے جارہے ہیں … ’’ستا ستا کہ ہمیں اشک بار کرتے ہیں‘‘۔ ایسے میں وہ پنڈت جو ماہرین کنڈلی ہیں وہ کچھ بوٹیوں کو جلا جلا کر ان کے دھوئیں سے بداثرات کو کم کرنے کی سعی لاحاصل کر رہے ہیں۔ حکومت کو یہ بھی سمجھایا جارہا ہے کہ یونانی ودیا کی رو سے روحانی قوتیں ان کے ساتھ ہیں۔ بس یہ جو تھوڑا سا تردّد اور تھوڑی سی پریشانی آئی ہے اس کی وجہ زائچے کے ساتویں گھر میں مشتری کی رجعت تھی۔ مشتری حکومت کا ستارہ ہے۔ اس کی شمس سے بدنظرات جو اثرات لاتی ہیں بس وہی تھیں … ماشاء اللہ رفع ہورہی ہیں۔ مزید نحوستیں اوراد اور وظائف سے دفع ہوجائیں گی۔ خدا حاسدوں اور دشمنوں کے شر سے حکمرانوں کو ہمیشہ محفوظ رکھے مگر مریخ کو حکومتی زائچے میں ستارہ زہرہ پر بہت تاؤ ہے۔ شمس کو مریخ سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہے کہ زہرہ کا کام دیوتائوں نے کچھ اور طے کر رکھا ہے۔ حکومت شمس کا حق ہے مگرزائچے میں مشتری کمزور ہے اس لیے مریخ کی رہنمائی اور فہم کی روشنی مسلسل مشعل راہ رہنی چاہیے۔ ورنہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ مگر شمس کو اپنی چمک اور روشنی پر اس قدر ناز ہے کہ وہ مریخ کیا … عطارد کے مشوروں کو بھی نہ خاطر میں لانے کے موڈ میں ہے۔ اس لیے دوسرے گھر میں بیٹھا زہرہ پہلے گھر میں موجود شمس کو مسلسل مس گائیڈ کر رہا ہے۔ ایسے میں پلوٹو اور یورینس بے بسی سے نظریں گاڑے تک رہے ہیں اور زیر لب کہہ رہے ہیں … چلو یونہی روٹھے رہو مگر خدا کے لیے لبوں سے تو کچھ نہ کہو۔ روحانی قوتوں نے حکمرانوں کو بتایا ہے کہ جب مشتری اور زحل مسلسل گردش میں آجائیں اور مریخ ناراض ناراض لگے تو ایسے میں کچھ صدقات اور وظائف ان کا توڑ کرنے کے لیے اشد ضروری ہوتے ہیں۔ اس لیے بادشاہ آج کل اپنا میدان جنگ چھوڑ کر ان قوتوں کا اسیر بنا بیٹھا ہے۔ زائچے کے دوسرے گھر کے مطابق دنیائے مادیت میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور نتائج کو زمان اور مکان کی چابیوں کے ذریعے ہموار کرتے ہیں۔ اس بات سے بے خبر کہ پاور پلے بنو امیہ کا ہوکہ بنو عباس کا … خلافت عثمانیہ ہو کہ مغل عہد … اس کے Dynamics ایک جیسے ہوتے ہیں۔ بعد میں نجومی اور مورخ اسے Rationalise کردیتے ہیں۔ نپولین جب سپاہی تھا تو ایک بلڈنگ کے پاس سے گزرا۔ بلڈنگ پر ایک نجومی کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ نپولین سیڑھیاں چڑھ کر فرسٹ فلور پر نجومی کے آفس میں چلا گیا۔ نپولین نے اپنا ہاتھ دکھایا اور اس نجومی نے کاغذ پر کچھ آڑھی ترچھی لکیریں بنائیں اور اس نے نپولین کے عروج کی پیشگوئی کردی۔ اسے خبردار بھی کیا کہ "J" کے لفظ سے اجتناب کرنا۔ بعد میں نپولین نے لیڈی جوزفین سے شادی کرلی۔ نپولین جب اپنی آخری جنگ لڑنے جارہا تھا تو اس نجومی نے نپولین سے رابطہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کی مگر ناکام رہا۔ واٹر لو کے میدان میں لاشوں کے انبار میں ایک لاش اس نجومی کی بھی تھی۔ اس کی مٹھی میں ایک کاغذ دبا ہوا تھا جس پر لکھا تھا ’’نپولین… آج جنگ نہ کرنا… آج کا دن تمہارے لیے بڑا منحوس ہے‘‘۔یہ تو خیر ایک واقعہ تھا۔ کہیں پڑھا تھا آپ سے شیئر کرلیا۔مگر کائنات کے کچھ ازلی اور ابدی اصول ہیں۔ انہی کی ضرب تقسیم سے واقعات اور نتائج جنم لیتے ہیں۔ انسان کا مزاج ہی اس کا مقدر ہوتا ہے۔ کبھی ارادے بڑے طاقتور ہوتے ہیں اور مزاج شکست دے دیتا ہے۔ کبھی قوت فیصلہ دھوکا دے جاتی ہے۔ مشیروں پر کیا شکوہ… ان پہ کیسی تہمتیں کہ ان کا انتخاب بھی تو آپ ہی کرتے ہیں۔ پاور پلے کے سلیقے، قرینے مختلف ہوتے ہیں مگر جس جادو نگری میں ہم رہتے ہیں اس میں کبھی جیت مات بن جاتی ہے اور مات جیت۔ عربی محاورہ ہے ’وقت ایک قاطع تلوار ہے۔ وقت جب عروج کو قطع کرتا ہے تو زوال شروع ہوجاتا ہے‘۔ صرف پاکستان کی تاریخ کے صفحات پلٹیں۔ ایوب اور اس سے پہلے والوں کو ذرا الگ کردیں۔ذوالفقار علی بھٹوں سے ضیاء الحق تک … بے نظیر سے نواز شریف تک اور پھر مشرف سے نواز شریف تک۔ ان سب کے اقتدار کے آخری ایام کا جائزہ لیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’’مت ای ماری گئی اے‘‘۔یہ جسے پاکستان کہتے ہیں اس کے پاور پلے کی غلام گردشوں کے تیور باقی ساری دنیا سے مختلف اور انوکھے ہیں۔ یہاں وہ کچھ ہو کر بھی نہیں ہوتا جو دوسری بستیوں میں ہو تو بڑا کچھ مانا جاتا ہے۔منیر نیازی کاایک شعر پہلے بھی عرض کیا تھا آج پھرپیش کر رہا ہوں ۔ کس دا دَوش سی تے کس دا نئی سی اے گلاں ہن کرن دیاں نئیں ویلے لنگھ گئے توبہ والے تے اے راتاں ہن ہوکے بھرن دیاں نئی اس سارے پولیٹیکل سٹاک ایکسچینج میں بھٹوز بھی ہیں اور شریفس بھی … مولاناز بھی ہیں اور خان بھی مگر سدابہار ایک چھوٹی سی جماعت ہے جو ہر اچھے اور برے سے سرجھکا کر نکل جاتی ہے۔ آئیے کسی سیاسی پنڈت سے پوچھیں کہ وہ کون سی جماعت ہے۔ وہ کون سی پارٹی ہے جو سال کے بارہ مہینوں میں زیادہ وقت آن بورڈ ہی رہتی ہے۔ ایک پنڈت نے نوازشریف کو پانامہ سے پہلے اور بعد مشورہ دیا کہ جب تیز آندھی چلے تو جو درخت جھک جاتے ہیں وہ بچ جاتے ہیں، کھڑے ہوئے درخت ٹوٹ کر گر جاتے ہیں۔ مگر نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم کو یہ بات پرویز رشید اور عرفان صدیقی نے سمجھنے نہ دی۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا ہے۔ شہباز یہ بات سمجھاتے سمجھاتے یہاں تک پہنچ گئے۔اب کتاب کا اگلا باب لکھا جارہا ہے۔ عمران خان نے 2014ء میں دھرنا دیا۔ مولانا نے وہی دھرنا 2019ء میں دے دیا۔ عمران نے 2018ء میں روحانی قوتوں سے ہاتھ ملایا۔ 2019ء میں شہباز نے زیادہ ریاضت کی اور پارٹی اور خاندان میں وہی بیانیہ منوانے میں کامیاب ہوگئے جو کبھی پنڈت نے نوازشریف کے کان میں کہا تھا۔