اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پنجاب میں اُردو اور پنجابی، سندھ میں سندھی اور اُردو، بلوچستان میں بلوچی اور اُردو، کے پی کے میں پشتو اور اُرود ہماری مادری زبانیں ہیں۔ اکیس فروری مادری زبانوں کا دن تھا۔پوری دنیا اپنی اپنی مادری زبانوں کے واری صدقے جا رہی تھی لیکن ہم نے دنیا بھر کی سات ہزار زبانوں میں نمایاں حیثیت اور ادب کا پُر وقار ذخیرہ رکھنے والی زبانوں کے مالک ہوتے ہوئے بھی اِن کی توقیر بحال کرنے کا یہ دن سیاسی کھمبا نوچی اور لمبی لمبی زبانوں سے جلے کٹے بیان دینے میں گزار دیا۔ اب تو ہم اس قدر ’مہذب‘ ہو چکے ہیں کہ ہمارے ہاں مادری زبان کو بے کار بلکہ گالی سمجھا جانے لگا ہے۔چھوٹی سی بچی گھریلو ’تربیت‘ یا سکولی پریشرکے پیشِ نظر اپنے چھوٹے بھائی کو تڑی لگا رہی ہوتی ہے: ’’مَیںماما کو بتاتی ہوں کہ تم نے پنجابی بولی ہے۔‘‘ سکول میں اُردو بولنے والوں کا منھ کالا کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز یونیورسٹیکے تعارفیہ سیشن میں قصور کے ایک طالب علم سے بلھے شاہ کا ایک شعر سنانے کو کہا تو وہ جھٹ بولا: سر وہ تو پنجابی میں ہے! ہم نے احتیاطاً پوچھا کہ آپ کی ماں جی کس زبان میں بات کرتی ہیں؟ کھسیانا سا ہو کے کہنے لگا: پنجابی میں!!! ان حالات میں اُردو زبان کی حالتِ زار اور مستقبل سے متعلق سوچتے سوچتے اچانک آنکھ لگ گئی تو خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ملک میں چاروں جانب اعلانات ہو رہے ہیں کہ حکومتِ وقت نے آئی ایم ایف سے ڈالروں کی صورت قرض کی اگلی قسط لینے کے لیے بہ رضا و رغبت اس معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں کہ آیندہ اس ملک میں کسی کو اُردو یا کوئی مادری زبان بولنے، پڑھنے، لکھنے، برتنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اس معاہدے کے مطابق آج اس ملک میں اُردو یا کوئی بھی مقامی زبان بولنے کا آخری دن ہے، یعنی: اِک مقتدر نے کہہ دیا تازہ بیان میں مجرم ہوا جو بات کرے اپنی زبان میں آج کل جس طرح کے ملکی حالات چل رہے ہیں۔عام آدمی کے کھانے، پینے، جینے، سینے، سونے حتیٰ کہ سانس لینے تک کے فیصلے کا اختیار آئی ایم ایف کو دیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو بنیادی قسم کی ضروریات کے حصول کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ پٹرول اور ڈالر قوم کے ابا جی بنے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں اس عجیب و غریب خیال کا آنا بعید از قیاس نہیںتھا۔ یہ اعلان اس زبان سے متعلق ہو رہا تھا، کسی زمانے میںجس کی بابت شاعر نے کہا تھا: اُردو لسانیات کی دنیا میں فرد ہے اُردو ولی ہے ، میر ہے ، سودا ہے ، درد ہے اگلے روز کیا منظر دیکھتے ہیں کہ صبح کسی گھر میں اخبار نہیں پھینکا گیا، دودھ دینے والا منھ پہ ڈھاٹا باندھ کے آیا، جسے ڈاکو سمجھ کے گھر والوں نے دروازہ نہیں کھولا۔کام والیاں کسی نادیدہ خوف کے پیش نظر گھر سے نہ نکلیں۔ عام کاروباری لوگ جرمانے کے خوف سے سڑکوں بازاروں سے اُردو میں لکھے سائن بورڈ اتارنے میں مصروف رہے۔ کچھ عجیب و غریب شکلوں والے لوگ دیواروں پہ لکھے وباؤں، دواؤں، اداؤں کے اشتہاروں پر کُوچی پھیرنے میں لگن سے مگن تھے۔ صبح سے شام تک لاؤڈ سپیکروں سے کان میں دم کر دینے والے پھیری والے غائب تھے۔ جمعہ کے روز بھی مسجدوں میں اذان کے بعد ہُو کا عالم تھا۔ حتّیٰ کہ چوکوں چوراہوں میں ڈھٹائی کی حد تک ہاتھ اور ہوس پھیلانے والے نظر نہیں آ رہے۔ بتایا گیاکہ ان سب کی یونین کے صدر نے ایک وزیر سے مذاکرات کے نتیجے میں مشترکہ فیصلے کے تحت’’بھکاری انگلش‘‘اکیڈمی میں داخلہ لے لیا ہے، جہاں انھیں ایک ماہ کے کورس میں ایسی بھیک آور انگریزی سکھائی جائے گی، جس کے بَل بوتے پر وہ ہر طرح کی بھیک مانگنے کی جملہ ادائیں، الفاظ اور جملے سیکھ جائیں گے۔ مرزا وضاحت علی خاں نے بتایا کہ جملہ حکومتی افراد پہلے ہی اس اکیڈمی میں رجسٹر ہو چکے ہیں جہاں انھیں ترغیب و تحریص کے طور پر ٹی اے، ڈی اے، تینوںکی اے؟ بھی ادا کیا جائے گا۔ چاروں جانب نظر دوڑاتے ہیں توڈاکٹروں کے کلینک ویران پڑے ہیں۔ تمام ڈاکٹروں کی ٹیوشن کے زور سے پڑھی ہوئی انگریزی مریضوں کے سامنے بے کار اور لم لیٹ پڑی ہے۔ کسی کو پیٹ میں گڑاؤں گڑاؤں، ماتھے پہ تریلیاں اور کانوں میں چَپّے کا ترجمہ نہیں آ رہا۔ ڈاکٹر کو ناقابلِ فہم انگریزی میں صرف فرمائشی اور کمشن آور دوائیں لکھنا آتی تھیں، اس کے لیے بھی مریضوں کا حال چال پوچھنا ضروری تھا۔ رنگ برنگے انجنئیر مزدوروں اور ٹھیکے داروں کے سامنے گونگے پہلوان بنے کھڑے ہیں۔ انھوں نے امتحان پاس کرنے کے لیے گزارے لائق انگریزی سیکھی تھی لیکن پبلک کے سامنے مجسم لطیفے کی صورت ایستادہ تھے۔ اسی طرح بازار میں دکاندار اشاروں سے سودا بیچنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ چوبیس گھنٹے چٹاک پٹاک کرنے والے مقامی ٹی وی چینلز کے تمام ڈرامے، ہنگامے بند ہیں۔ کوئی کمپنی انگریزی میں اشتہار بنوانے کو تیار نہیں، ا س لیے ہر شو کی ریٹنگ مُودڑے منھ پڑی ہے۔ البتہ دن میں ایک دو بار خبروں کے انگریزی بولٹن لنگڑا لنگڑا کے رینگتے رہتے ہیں۔ تھیٹر کے ڈرامے اور ٹی وی کے تمام کامیڈی شوز سر میں خاک ڈالے بیٹھے ہیں کہ تمام انگریزی لغتیں، پنجابی جگتوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ انگریزی ناموں والے ٹاک شوز میں چٹر پٹر کرنے والے اینکر اور لاڈے سیاستدان تو سمجھو گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہیں۔ پولیس والے تھانے کو تالے لگا کے نہ جانے کہاں سٹک گئے ہیں کہ ان کے لیے دیہاتوں سے مادری زبانوں میں ڈھولے، ماہیے، ٹپے گانے کے جرم میں گرفتار مزدوروں، کسانوں پہ ایف آئی آر کاٹنا مشکل ہوا پڑا ہے۔ نکاح نامے انگریزی میں ہو جانے کی وجہ سے مولویوں نے معذرت کر لی ہے۔ شادیوں میں مہندی ڈھولکی والوں کے گھر میں پٹس پڑی ہے کہ ان سے ’ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘ اور لٹھے دی چادر، اُتے سلیٹی رنگ ماہیا‘ کا ترجمہ نہیں ہو پا رہا۔ تفصیل جاننے کے لیے جلدی جلدی اپنا ٹی وی آن کیا تو اندر سے کتے بِلوں کی سی آوازیں آ رہی تھیں۔ سوچا یہ وہی ٹی وی ہے، جس کا سارا رزق روٹی، مستیاں، خرمستیاں، سازشیں، نوازشیں، اُشقلے، مشغلے، اِسی اُردو زبان سے وابستہ ہوا کرتے تھے لیکن ان میں کسی چینل کو اُردو کے حق میں بات کرنے، تحریک چلانے، حکمرانوں کا بائیکاٹ کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ اُردو زبان، جون ایلیا کی زبان میں کہتی ہی رہ گئی: بولتے کیوں نہیں مِرے حق میں آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟ ذہن ماضی کی طرف گیاجب نشریات کے بڑے سے بڑے تعطل کو ’’انتظار فرمائیے‘‘ کی آڑ میں چھپا لیا جاتا تھا۔ ٹی وی چَینلوں کی بدقسمتی کہ، آج ان سے یہ بے ضرر سی سہولت بھی چھین لی گئی تھی۔ بے چَین ہو کے پڑوسی ملک کا ایک چینل آن کیا تو وہ لہک لہک کے تمسخرانہ انداز میں بار بار بتا رہے تھے کہ ہمارے پڑوس میں ایک ایسا ملک ہے جس میں چلتے پھرتے انسانوں کی آبادی کبھی تئیس کروڑ ہوا کرتی تھی، اب وہاں پونے تئیس کروڑ گونگے رہتے ہیں۔ (جاری)