کوئی شک نہیں کہ تجارت ہمیشہ قریبی پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے۔ ہمارے قریب ترین پڑوسی جن کے ساتھ تجارت بظاہر ہماری عوام کو فائدہ دے سکتی ہے وہ ایرن اور بھارت ہیں۔ آج صرف بھارت ک بارے میںبات کرتے ہیں۔ حال ہی میں ہماری حکومت کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ ہمارے تاجر نئی دہلی کے ساتھ تجارت چاہتے ہیں۔ لیکن کیا یہ سب واقعی اتنا سیدھا اور آسان ہے؟َ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاک بھارت تجارت ہمیشہ سے ضرورت اور معیشت کے ساتھ ساتھ سیاست کے ساتھ بھی نتھی رہی ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں کچھ ایسے معاشی اور سیاسی ماہرین ہیں جو پاک بھارت تجارت کو پاکستان کے لیے فائدہ منداور پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے اہم ذریعہ بتاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تجارت کی بدولت پاک بھارت تعلقات میں بہتری آنے کے ساتھ ساتھ تمام مسائل کا حل بذریعہ بات چیت نکل آئے گا۔ اگر ہم سیاست اور کشمیر کو بالائے طاق رکھ کر بھی دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جلد بازی میں اور بھارتی روڈ میپ کے مطابق تجارت کی بحالی اور اسمیں فوری اضافے کی کوششوں کے تنائج کسی بھی طرح پاکستان کی معیشت ، صنعت اور زراعت کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتے۔ اس وقت بھی بھارت نے پاکستان سے تمام درآمدات پر دو سو فیصد ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے۔ ان حالات میں آپ بھارتی مصنوعات خرید کر بھارت کی کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار تو ادا کریں گے، لیکن دو سو فیصد ڈیوٹی کی موجودگی میں پاکستان بھارت کو کیا برآمد کر سکے گا؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ اگر بھارت موجودہ حالات میں پاکستان کے ساتھ تجارت کے لیے تیار ہو بھی جائے تو اس سب سے کیا بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات میں حقیقی بہتری آئے گی یا پھر بھارت اس سب کے پردے میں کچھ اور سیاسی اور سفارتی مفادات حاصل کرنے کا خواہاں ہو گا؟ ہمارے ملک میں ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر پاک بھارت تجارت اس حد تک پہنچ جائے کہ دونوں ممالک کی عوام اور معیشت ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگ جائیں تو یہ ممالک اس امر پر مجبور ہو جائیں گے کہ ایک دوسرے کے خلاف کوئی اقدام یا ایک دوسرے سے کوئی مطالبہ نہ کر سکیں ۔ یعنی بھارت پاکستان کی معاشی مجبوری بن جائے اوربھارتی عوام اور بھارتی معیشت پاکستان پر انحصار کرنے لگ جائے۔ فرض کریں کہ ایک دوسرے پر یہ انحصار اس حد تک ہو ہی جائے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے کوئی مطالبہ یا اس کے لیے کوئی اقدام نہ کر سکیں تو بھی کیا ہو گا؟ بھارت تو خوشی سے یہ صورتحال قبول کر لے گا کیونکہ پاکستان نہ تو کسی بھارتی علاقے پر قابض ہے اور نہ کسی بھارتی دریا کا پانی روک رہا ہے۔ سوال تو ان اقدامات کو واپس لینے کا ہے جو بھارت کشمیر، کشمیری عوام اور پاکستان کے خلاف اٹھا چکا ہے۔ان کا کیا ہو گا؟َپاکستان کو کیا ملے گا ؟ پاکستان نہ تو کشمیر پر بات کر سکے گا اور نہ بھارت سے یہ مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا کہ بھارت پاکستانی دریائوں کے پانی پر ناجائز قبضہ نہ کرے۔ نہ ہم بلوچستان میں بھارتی در اندازی کے بارے میںکوئی بات کریں گے، کیونکہ تجارت ہو رہی ہو گی ۔ اگر یہ سب ممکن ہو بھی جائے تو کیا اسے امن کہا جا سکے گا؟ یہ امن کی بات ہو رہی ہے یا دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنے کی؟ اسی طرح کچھ خود ساختہ دانشوروں نے کشمیر کے دونوں اطراف کی آبادی کو غربت کی درد انگیز تصویر کھینچتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر تجارت کو انکی کی روزی روٹی کے لیے لازم قرار دیا ہے۔ تجارت سے سیاسی اور سرحدی تنازعات اور اختلافات حل نہیں ہوتے بلکہ ان تنازعات کے حل کے بعد تجارت خود بخود پھلنے پھولنے لگتی ہے۔ سیاسی اور سرحدی معاملات خارجہ امور کے ماہر بیٹھ کر حل کرتے ہیں نہ کہ تاجر۔ تاجر تو سرحد کے جس طرف کا بھی ہو اسے تو صرف منافع کمانے سے غرض ہوتی ہے۔ دراصل یہ بھارتی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے کہ بھارت اور پاکستان میں موجود بھارت نواز لابی ہمیں ایسی بحث میں الجھا رہی ہے کہ جس کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ حاصل۔ کیا بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے ہمارے پاس صرف یہ موضوع ہی موجود ہے کہ تجارت ہوکہ نہ ہو یا پاک بھارت کرکٹ بحال کرنے کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ نہ تو بھارت سے تجارت کرنے سے سندھ اور بلوچستان میں بھارتی در اندازی ختم ہو گی اور نہ پاک بھارت کرکٹ سے کشمیر اور سیاچین آزاد ہونگے۔ اگر کشمیر، سیاچن ، سرکریک ، ولر بیراج اور سندھ بلوچستان سمیت تمام پاکستان میں ہونے والی بھارتی در اندازی ( حکومتی یا کسی بھی سطح پر) کے بارے میں بات کرنے کی بجائے کرکٹ یا تجارت کی بحالی پر بات چیت ہونی ہے تو یہ بھارت کی سفارتی فتح تو ہو گی لیکن پاکستان کے کونسے مسائل حل ہونگے ؟ جب پاک بھارت تجارت کی بات ہوتی ہے تو بھارتی حکومت اور پاکستان میں موجود بھارت نواز لابی کی جانب سے ایک ’’ چھوٹا سا معصوم مطالبہ‘‘ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ دونو ں ممالک کے درمیان ’’ ٹرانزٹ ٹریڈ‘‘ یعنی تجارت کے لیے ایک دوسرے کو راہداری دینے کا معاہدہ بھی ہونا چاہئیے۔ بھارت کے پاس سمندر اور بندرگاہوں کی کمی نہیں ہے اس لیے اسے پاکستان کے راستے سمندری تجارت کی تو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ واحد اہم ملک جس سے بھارت کا سمندری یا زمینی رابطہ نہیں ہے وہ ہے افغانستان۔ ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ کرنے سے بھارت کا یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ افغانستان سے تجارت تو صرف ایک بہانہ ہے۔ ورنہ افغانستان کے راستے بھارت کے پاکستان کے بارے میں کیا عزائم ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ اس پس منظر، ان حالات میں اور ا س وقت باقی حقیقی مسائل چھوڑ کر صرف تجارت کی بات کرنے کا مطلب تو شاید یہ ہو گا کہ ہم خشک ہوتے دریائوں کو اپنا مقدر سمجھ چکے ہیں اور کشمیر میں بھارتی اقدامات کو بھی قبول کر چکے ہیں؟